سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 93


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 93 

راستے کے چند واقعات:


صحیح بخاری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: "ہم لوگ (غار سے نکل کر) رات بھر اور دن میں دوپہر تک چلتے رہے، جب ٹھیک دوپہر کا وقت ہوگیا، راستہ خالی ہوگیا اور کوئی گزرنے والا نہ رہا تو ہمیں ایک لمبی چٹان دکھلائی پڑی، جس کے سائے پر دھوپ نہیں آئی تھی، ہم وہیں اتر پڑے۔

میں نے اپنے ہاتھ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سونے کے لیے ایک جگہ برابر کی اور اس پر ایک پوستین بچھا کر گزارش کی: "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ سو جائیں اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد وپیش کی دیکھ بھال کیے لیتا ہوں۔"

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے اور میں آپ کے گردوپیش کی دیکھ بھال کے لیے نکلا، ایک چرواہا اپنی بکریاں لیے چٹان کی جانب چلا آرہا ہے، وہ بھی اس چٹان سے وہی چاہتا تھا جو ہم نے چاہا تھا،  میں نے اس سے کہا: "اے جوان! تم کس کے آدمی ہو؟" اس نے مکہ یا مدینہ کے کسی آدمی کا ذکر کیا۔
میں نے کہا: "تمہاری بکریوں میں کچھ دودھ ہے؟" اس نے کہا: "ہاں!" میں نے کہا: "دوھ سکتا ہوں؟" اس نے کہا: "ہاں" اور ایک بکری پکڑی۔ میں نے کہا: "ذرا تھن کو مٹی، بال اور تنکے وغیرہ سے صاف کرلو۔" اس نے ایک کاب میں تھوڑا سا دودھ دوہا اور میرے پاس ایک چرمی لوٹا تھا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پینے اور وضو کرنے کے لیے رکھ لیا تھا۔

میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، لیکن گوارا نہ ہوا کہ آپ کو بیدار کروں، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو میں آپ کے پاس آیا اور دودھ پر پانی انڈیلا، یہاں تک کہ اس کا نچلا حصہ ٹھنڈا ہوگیا، اس کے بعد میں نے کہا: "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! پی لیجئے، آپ نے پیا، یہاں تک کہ میں خوش ہوگیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا ابھی کوچ کا وقت نہیں ہوا؟" میں نے کہا: "کیوں نہیں" اس کے بعد ہم لوگ چل پڑے۔ (صحیح البخاری ۱/۵۱۰)

اسی سفر میں دوسرے یا تیسرے دن آپ کا گزر "اُمّ معبد خزاعیہ" کے خیمے سے ہوا، (اس اہم واقعہ کا تفصیلی ذکر اگلی قسط میں ہوگا)

اس کے بعد آپ مقام حجفہ پہنچے جو مکہ کی شاہراہ پر ہے اور جہاں سے مدینہ کی طرف راستہ نکلتا ہے، وہاں بیت اللہ اور مکہ کی یاد سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اُداسی کے آثار نمایاں ہوئے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ سورۂ قصص کی آیت ۸۵ نازل ہوئی: 

*"اے پیغمبر! جس اللہ نے آپ پر قرآن نازل فرمایا ہے وہ آپ کو دوبارہ پہلی جگہ لانے والا ہے، کہہ دیجئے کہ میرا رب اُسے بھی بخوبی جانتا ہے، جو ہدایت لایا ہے اور اسے بھی جو کھلی گمراہی میں ہے۔" (سورہ قصص ۸ ۲: ۸۵)

اس آیت کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی تسکین ہوئ، یہاں سے یہ مختصر قافلہ یثرب کی جانب روانہ ہوا، اثنائے راہ میں بنی اسلم کا سردار "بریدہ بن خصیب اسلمی" ملا، جس کے ساتھ ستر (۷۰) آدمی تھے، قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری پر ایک سو اونٹ کے انعام کا اعلان کیا تھا اور بریدہ اسی انعام کے لالچ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلا تھا، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شرفِ ہم کلامی کا موقع ملا، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت متاثرہوا اور ستر (۷۰) ساتھیوں سمیت مسلمان ہوگیا اور آپ کے ساتھ شریک سفر ہوگیا۔

تاریخ اسلام کا پہلا پرچم: 

جب یہ قافلہ قبا کے قریب پہنچا تو بریدہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:  "کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ قافلۂ نبوت کے ساتھ آپ کا پرچم بھی موجود ہو-" چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عمامہ اتارا، اپنے ہاتھ سے اسے نیزہ پر باندھا اور بطور پرچم بُریدہ رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا، انہوں نے اسے ہوا میں لہرایا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علم بردار کی حیثیت سے آگے آگے چلنے لگے، یہ تایخ اسلام کا پہلا پرچم تھا۔ (قاضی سلیمان منصور پوری : رحمتہ للعالمین مصباح الدین شکیل : سیرت احمد مجتبیٰ ابن جوزی : الوفا)

راستہ میں حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی، وہ تجارتی قافلہ کے ساتھ شام سے آرہے تھے، انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے خسر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں سفید کپڑوں کا ایک جوڑا پیش کیا اور کہا کہ قافلہ اور مال کو مکہ پہنچا کر ہجرت کرکے آجاؤں گا۔

ادھرمکے میں ایک آواز ابھری جسے لوگ سن رہے تھے، مگر اس کا بولنے والا دکھائی نہیں پڑ رہا تھا، آواز یہ تھی :

جزی اللہ رب العرش خیر جزائہ رفیقین حـلا خیمتی أم معبـد
ہمـا نـزلا بالبـر وارتحـلا بـــہ وأفلح من أمسی رفیق محمـد
فیـا لقصـی مـا زوی اللہ عنکـم بہ من فعال لا یجازی وسودد
لیہن بـنی کـعب مـکان فتاتہـم ومقعدہـا للمؤمنیـن بمرصد
سلوا أختکـم عن شأتہـا وإنائہا فإنکم إن تسألوا الشـاۃ تشہـد

''اللہ رب العرش ان دورفیقوں کو بہتر جزادے، جو امِ معبد کے خیمے میں نازل ہوئے، وہ دونوں خیر کے ساتھ اترے اور خیر کے ساتھ روانہ ہوئے اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا رفیق ہوا وہ کامیاب ہوا، ہائے قُصی!  اللہ نے اس کے ساتھ کتنے بے نظیر کارنامے اور سرداریاں تم سے سمیٹ لیں،  بنوکعب کو ان کی خاتون کی قیام گاہ اور مومنین کی نگہداشت کا پڑاؤ مبارک ہو، تم اپنی خاتون سے اس کی بکری اور برتن کے متعلق پوچھو، تم خود بکری سے پوچھو گے تو وہ بھی شہادت دے گی-

حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: "ہمیں معلوم نہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدھر کا رخ فرمایا ہے کہ ایک جن زیریں مکہ سے یہ اشعار پڑھتا ہو آیا، لوگ اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے، اس کی آواز سن رہے تھے، لیکن خود اسے نہیں دیکھ رہے تھے، یہاں تک کہ وہ بالائی مکہ سے نکل گیا۔" وہ کہتی ہیں کہ جب ہم نے اس کی بات سنی تو ہمیں معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدھر کا رُخ فرمایا ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رُخ مدینہ کی جانب ہے۔

(زاد المعاد ۲/۵۳، ۵۴۔ مستدرک حاکم ۳/۹، ۱۰حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے- اسے بغوی نے بھی شرح السنہ ۱۳/۲۶۴ میں روایت کیا ہے)۔


==================> جاری ہے ۔۔۔ 

سیرت المصطفیٰ مولانا محمد ادریس کاندہلوی
الرحیق المختوم مولانا صفی الرحمن مبارکپوری

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں