سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 88


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 88 

قریش کی پارلیمنٹ دارالندوہ میں: 


جب مشرکین نے دیکھا کہ صحابہ کرام تیار ہو ہو کر نکل گئے اور بال بچوں اور مال ودولت کو لے کر اَوس وخَزرَج کے علاقے میں جا پہنچے تو ان میں بڑا کہرام مچا، بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد جب کفار قریش کو اس بیعت کی تفصیل معلوم ہوئی تو انہوں نے خیال کیا کہ مسلمانوں کو اب یثرب میں ٹھکانہ میسر آگیا ہے اور قبائل اوس و خزرج کی مدد بھی حاصل ہو گئی ہے، بہت ممکن ہے کہ عنقریب تمام مسلمان یثرب کو ہجرت کر جائیں، کفّاران قریش نے محسوس کیا کہ کچھ دن میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہجرت کر جائیں گے۔

مشرکین کو معلوم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اندر کمال قیادت و رہنمائی کے ساتھ ساتھ کس قدر انتہائی درجہ قوتِ تاثیر موجود ہے اور آپ کے صحابہ میں کیسی عزیمت واستقامت اور کیسا جذبہ فداکاری پایا جاتا ہے، پھر اوس وخزرج کے قبائل میں کس قدر قوت وقدرت اور جنگی صلاحیت ہے اور ان دونوں قبائل کے عقلاء میں صلح وصفائی کے کیسے جذبات ہیں اور وہ کئی برس تک خانہ جنگی کی تلخیاں چکھنے کے بعد اب باہمی رنج وعداوت کو ختم کرنے پر کس قدر آمادہ ہیں، انہیں اس کا بھی احساس تھا کہ یمن سے شام تک بحر احمر کے ساحل سے ان کی جو تجارتی شاہراہ گزرتی ہے، اس شاہراہ کے اعتبار سے مدینہ فوجی اہمیت کے کس قدر حساس اور نازک مقام پر واقع ہے، درآں حالیکہ ملک شام سے صرف مکہ والوں کی سالانہ تجارت ڈھائی لاکھ دینار سونے کے تناسب سے ہوا کرتی تھی، اہلِ طائف وغیرہ کی تجارت اس کے علاوہ تھی اور معلوم ہے کہ اس تجارت کا سارا دار ومدار اس پر تھا کہ یہ راستہ پُر امن رہے۔

ان تفصیلات سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ یثرب میں اسلامی دعوت کے جڑ پکڑنے اور اہل مکہ کے خلاف اہل یثرب کے صف آرا ہونے کی صورت میں مکے والوں کے لیے کتنے خطرات تھے؟ اب ان کے سامنے ایک ایسا عظیم اور حقیقی خطرہ مجسم ہوچکا تھا جو ان کی بت پرستانہ اور اقتصادی اجتماعیت کے لیے چیلنج تھا، چونکہ مشرکین کو اس گھمبیر خطرے کا پورا پورا احساس تھا جو ان کے وجود کے لیے چیلنج بن رہا تھا، اس لیے انہوں نے اس خطرے کا کامیاب ترین علاج سوچنا شروع کیا اور معلوم ہے کہ اس خطرے کی اصل بنیاد دعوتِ اسلام کے علمبردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی تھے۔

مشرکین نے اس مقصد کے لیے بیعتِ عقبہ کبریٰ کے تقریباً ڈھائی مہینہ بعد 26 صفر 14 نبوت مطابق 12 ستمبر 622 یوم جمعرات کو دن کے پہلے پہر مکے کی پارلیمنٹ "دار الندوہ" میں خفیہ اجتماع منعقد کیا، اس خطرناک اجتماع میں نمائندگان قبائل قریش کے نمایاں چہرے یہ تھے: 

ابوجہل بن ہشام قبیلہ بنی مخزوم سے۔
جبیر بن مطعم، طعیمہ بن عدی اور حارث بن عامر بنی نوفل بن عبد مناف سے۔
شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ابوسفیان بن حرب بنی عبد شمس بن عبد مناف سے۔
نضر بن حارث بنی عبد الدار سے۔
ابو البختری بن ہشام، زمعہ بن اسود اور حکیم بن حزام بنی اسد بن عبد العزیٰ سے۔
نبیہ بن حجاج اور منبہ بن حجاج بنی سہم سے۔
امیہ بن خلف بنی جمح سے۔

اجتماع مکمل ہوگیا تو تجاویز اور حل پیش کیے جانے شروع ہوئے اور دیر تک بحث جاری رہی، پہلے ابو الاسود نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے درمیان سے نکال دیں اور اپنے شہر سے جلاوطن کردیں، پھر ہمیں اس سے کوئی واسطہ نہیں کہ وہ کہاں جاتا اور کہاں رہتا ہے، بس ہمارا معاملہ ٹھیک ہوجائے گا اور ہمارے درمیان پہلے جیسی یگانگت ہوجائے گی۔

ابوالبختری نے کہا کہ اسے لوہے کی بیڑیوں میں جکڑ کر قید کردو اور باہر سے دروازہ بند کردو، پھر اسی انجام (موت) کا انتظار کرو جو اس سے پہلے دوسرے شاعروں مثلاً زہیر اور نابغہ وغیرہ کا ہوچکا ہے۔

یہ دونوں تجاویز پارلیمنٹ نے رد کردیں تو ایک تیسری مجرمانہ تجویز پیش کی گئی جس سے تمام ممبران نے اتفاق کیا، اسے پیش کرنے والا مکے کا سب سے بڑا مجرم ابوجہل تھا۔

اس نے کہا: "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں میری ایک رائے ہے، میں دیکھتا ہوں کہ اب تک تم لوگ اس پر نہیں پہنچے۔"

لوگوں نے کہا: "ابوالحکم وہ کیا ہے؟"

ابوجہل نے کہا: "میری رائے یہ ہے کہ ہم ہر ہر قبیلے سے ایک مضبوط، صاحبِ نسب اور بانکا جوان منتخب کرلیں، پھر ہر ایک کو تیز تلوار دیں، اس کے بعد سب کے سب کا رخ کریں اور اس طرح یکبارگی تلوار مار کر قتل کردیں جیسے ایک ہی آدمی نے تلوار ماری ہو، یوں ہمیں اس شخص سے راحت مل جائے گی اور اس طرح قتل کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس شخص کا خون سارے قبائل میں بکھر جائے گا اور بنو عبد مناف سارے قبیلوں سے جنگ نہ کرسکیں گے، لہٰذا دیت (خون بہا) لینے پر راضی ہوجائیں گے اور ہم دیت ادا کردیں گے۔"

پارلیمان مکہ نے اس مجرمانہ قرارداد پر اتفاق کرلیا اور ممبران اس عزم مصمم کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس گئے کہ اس قرارداد کی تنفیذ علی الفور کرنی ہے، دن، تاریخ اور وقت قتل بھی خفیہ طور پر طے کر

لیا گیا، لیکن اس مقررہ تاریخ سے عین ایک روز قبل اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہجرت کی اجازت عطا فرمائی اور بذریعہ وحی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کفارانِ قریش کی رازدارانہ کارروائی سے مطلع فرمایا۔ سورہ ٔ انفال کی آیت نمبر 30 میں اس جانب اشارہ فرمایا گیا ہے: 

"اور (اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! وہ وقت بھی یاد کرو) جب کہ کفار تمہارے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تمہیں قید کر دیں یا قتل کر دیں یا جلا وطن کر دیں، وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔"


==================> جاری ہے ۔۔۔ 

سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں