سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط 72


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط 72 

حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے شادی: 


حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں آنے کی فضیلت حاصل ہوئی، حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح چونکہ قریب قریب ایک ہی زمانہ میں ہوا تھا، اس لئے مؤرخین میں اختلاف ہے کہ کس کو تقدم حاصل ہے؟ 

ابن اسحٰق کی روایت ہے کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو تقدم حاصل ہے، جبکہ علامہ ابن کثیر نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں لکھا ہے کہ: رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی سب سے پہلے نکاح کیا، تاہم جمہور کے مطابق ازواجِ مطہرات میں یہ فضیلت حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو حاصل ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد سب سے پہلے وہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقد نکاح میں آئیں۔

حضرت سودہ قبیلہ عامر بن لوئی سے تھیں، جس کا سلسلہ مدینہ کے خاندان بنو نجّار سے ملتا ہے،  جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پردادا ہاشم نے شادی کی تھی، وہ ابتدائے نبوت میں مشرف بہ اسلام ہو چکی تھیں، ان کی شادی پہلے حضرت سکران بن عمرو رضی اللہ عنہ سے ہوئی تھی،  حضرت سودہ رضی اللہ عنہا انہی کے ساتھ اسلام لائیں اور ان کے ساتھ حبشہ جانے والی دوسری جماعت کے ساتھ ہجرت کی، وہاں کئی برس رہ کر مکہ آئیں، کچھ دنوں بعد حضرت سکران رضی اللہ عنہ نے وفات پائی، ان سے ایک بیٹے عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ تھے، جنہوں نے جنگ جلولا (ایران ) میں شہادت پائی۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غمگین رہا کرتے تھے، کم سن بچیوں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی خبر گیری کرنے والا کوئی نہ تھا، یہ دیکھ کر حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی زوجہ حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک مونس و رفیق کی ضرورت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایماء سے وہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے والد کے پاس گئیں اور جاہلیت کے طریقہ پر سلام کیا، پھر نکاح کا پیغام پہنچایا۔

انہوں نے کہا: "ہاں! محمّد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شریف کفو ہیں، لیکن سودہ سے بھی تو دریافت کرو۔" غرض سب مراحل طے ہوگئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے گھر تشریف لے گئے، ان کے والد نے نکاح پڑھایا اور چار سو درہم مہر قرار پایا۔

نکاح کے وقت حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کی عمر تقریباََ پچاس سال تھی، ان کی ماں کا نام سموس بنت قیس تھا، شوال 10 نبوت میں نکاح ہوا۔

سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا بلند قامت اور فربہ اندام تھیں، سخاوت و فیاضی ان کے اوصاف کے نمایاں پہلو تھے، فطرتاً اور طبیعتاً ایک صالح، حق پسند اور دور اندیش خاتون تھیں، بزرگوں کی اطاعت، بچوں سے محبت اور سب کی خدمت کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، آپ رضی اللہ عنہا سنجیدہ مزاج تھیں اور قبول اسلام سے قبل بھی زمانہ جاہلیت کے رسوم و رواج کو پسند نہیں کرتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے توحید ورسالت کا اعلان فرمایا تو آپ رضی اللہ عنہا نے اس پیغام کو فوراً قبول فرما لیا اور دعوت توحید کے تین سالہ دور میں جن 133 افراد نے اسلام قبول کیا ان میں آپ رضی اللہ عنہا کا نام بھی نمایاں طور پر شامل ہے۔

آپ رضی اللہ عنہا اپنے قبیلے بنی لوی میں سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئیں اور آپ رضی اللہ عنہا کی کوششوں سے آپ رضی اللہ عنہا کے شوہر، میکے اور سسرال کے خاندانوں کے بہت سے افراد نے بھی اسلام قبول کیا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کے کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی، آپ کا انتقال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری زمانہ میں 22 ہجری میں ہوا-


==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں