سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 84


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 84 

پہلی نماز جمعہ: 


پہلی بیعت عقبہ کے بعد یثرب میں اسلام تیزی سے پھیلنے لگا، صرف چار گھرانے باقی رہ گئے تھے جو بعد میں ایمان لائے، حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کی کوششوں سے نماز باجماعت کا انتظام ہو گیا تھا جو حارّہ بنی بیاضہ میں ادا کی جاتی تھی، جب مسلمانوں کی تعداد چالیس ہو گئی تو یہودیوں کے سبت (ہفتہ) اور عیسائیوں کے اتوار کی طرح اجتماعی عبادت کے لئے جمعہ کا دن اختیار کیا جو عہد جاہلیت میں یوم عروبہ کہلاتا تھا، کعب بن لوئی نے اس کا نام بدل کر جمعہ رکھا۔

سب سے پہلی نماز جمعہ حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے بنی بیاضہ کے علاقہ میں پڑھائی،  اس وقت تک نماز جمعہ کا حکم نہیں آیا تھا، روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہونے والے انصار کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ تمام مسلمانوں پر جمعہ فرض کر دیا گیا، مشہور انصاری صحابی حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بڑھاپے میں نابینا ہو گئے تھے، ان کے بیٹے عبدالرحمن رضی اللہ عنہ ان کا ہاتھ پکڑ کر مسجد لے جاتے تھے، جمعہ کی اذان سنتے ہی وہ اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے لئے دعائے مغفرت کرتے، بیٹے نے وجہ دریافت کی تو کہا کہ ہمیں مدینہ میں سب سے پہلے جمعہ کی نماز انہوں نے ہی پڑھائی تھی۔

نبوت کے تیرہویں سال موسم حج جون 622ء میں یثرب سے پانچ سو زائرین آئے، جن میں 73 مرد اور 2 عورتیں مسلمان تھیں، یہ اپنی قوم کے مشرک حاجیوں میں شامل ہوکر آئے تھے، مقصد یہ تھا کہ جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا وہ اس دولت سے مشرف ہوں اور جو اسلام قبول کر چکے تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرکے اسلام سے وفاداری اور آپ پر جاں نثاری کا پختہ عہد کریں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکّہ سے ہجرت فرما کر مدینہ میں قیام کی دعوت دیں، اس قافلہ نے منیٰ میں قیام کیا اور خفیہ طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ارادہ سے مطلع کیا۔

چنانچہ رات میں اُسی قدیم گھاٹی عقبہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کا اہتمام کیا گیا، دو عورتوں میں ایک بنی مازن بن نجار کی حضرت نسیبہ بنت کعب رضی اللہ عنہا تھیں جو اپنی کنیت "اُمِّ عمارہ" کے نام سے مشہور تھیں اور دوسری خاتون بنی سلمہ کی حضرت اسماء بنت عمرو رضی اللہ عنہا "اُمِّ منیع" تھیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ آپ کے چچا حضرت عباس (رضی اللہ عنہ) بھی آئے تھے، یہ اگرچہ ابھی مشرف بہ اسلام نہ ہوئے تھے مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جان چھڑکتے تھے، انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا: 

"اے لوگو! تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ آنے کی دعوت تو دی، مگر سُن لو کہ وہ اپنے خاندان میں سب سے زیادہ معزز ہیں، جو لوگ ان پر ایمان لائے وہ بھی ان کے لئے سینہ سپر رہتے ہیں اور جو ایمان نہیں لائے وہ بھی خاندانی عزت و شرف کی وجہ سے ان کی حمایت کرتے ہیں، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب کو چھوڑ کر تمہارے ساتھ رہنا منظور کیا ہے، لہٰذا اگر تم اپنے اندر ان کی حفاظت و مدافعت کی طاقت پاتے ہو اور ان کی خاطر سارے عرب کی دشمنی مول لینے کے لئے تیار ہو تو اچھی طرح آپس میں مشورہ کرکے بات طے کرلو اور وہی بات کہو جس پر سب کا اتفاق ہو جائے کیونکہ سچی بات ہی اچھی ہوتی ہے۔"

حضرت عباس (رضی اللہ عنہ) کی یہ تقریر سن کر رئیس خزرج برأ بن معرور رضی اللہ عنہ نے کہا:  "اے عباس! تم نے جو کچھ کہا ہم نے وہ سنا، ہم نے وہی کہا جو ہمارے دل میں ہے، ہم نے راست گوئی، ایفائے عہد اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اپنی جانیں قربان کر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔"

پھر دوسروں نے کہا: "یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم ہر طرح حاضر ہیں، آپ جو چاہیں ہم سے عہد لیں۔"

یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن مجید کی کچھ آیات تلاوت فرمائیں اور تعلیمات اسلام پیش کیں، پھر فرمایا: "میں چاہتا ہوں کہ جس طرح تم اپنے بیوی بچوں کی حفاظت و حمایت کرتے ہو، اسی طرح میری اور میرے ساتھیوں کی حمایت و نصرت کا وعدہ کرو۔"

برأ بن معرور رضی اللہ عنہ کہنے لگے: "یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، ہم وعدہ کرتے ہیں کہ جس طرح اپنے بیوی بچوں کی حمایت و حفاظت کرتے ہیں آپ کی بھی کریں گے، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! دستِ مبارک بڑھائیے اور ہم سے بیعت لیجئے، ہم میدانِ جنگ کے شہسوار ہیں۔"

مگر ابو الہشیم بن التیہان رضی اللہ عنہ نے ان کی بات کاٹ دی اور کہنے لگے، "یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہمارے یہودیوں سے کچھ تعلقات ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستگی کے بعد یہ تعلقات ختم ہو جائیں گے، ایسا نہ ہو کہ جب اللہ تعالیٰ آپ کو قوت و طاقت عطا فرمائے تو (آپ کی قوم آپ کو بلا لے اور) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس لوٹ جائیں اور ہم کو چھوڑ دیں۔"

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسکراکر فرمایا: "نہیں! تمہارا خون میرا خون ہے، تم میرے ہو اور میں تمہارا، تمہاری اور میری صلح و جنگ ایک ہے۔"

اس گفتگو کے بعد حاضرین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بیعت کے لئے ہاتھ بڑھائے،  بیعت کے دوران عباس بن عبادہ انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا.. "اے گروہ خزرج! اچھی طرح سمجھ لو کہ تم کس چیز پر بیعت کر رہے ہو، تم عرب و عجم سے جنگ پر بیعت کر رہے ہو۔"

سب نے یک زبان ہو کر جواب دیا: "ہاں! ہم اسی پر بیعت کر رہے ہیں، ہماری جان اور مال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے حاضر ہے۔"

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم نے عرض کیا کہ اے ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم آپ سے کس بات پر بیعت کریں؟" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: 

1.. خوشی اور ناخوشی ہر حال میں سمع و طاعت کرنا۔
2.. تنگ دستی و خوشحالی میں ﷲ کی راہ میں خرچ کرنا۔
3.. نیک کام کرنے کی تلقین اور برے کام کے روکنے کی تاکید کرنا۔
4.. ﷲ کے دین میں کسی ملامت گر کی ملامت سے نہ ڈرنا۔
5.. جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ چلے آئیں تو آپ کی ایسی حفاظت کرنا، جیسی اپنے جان و مال اور اہل و عیال کی کرتے ہیں اور صلہ جنت ہے۔

ابن اسحاق کی روایت ہے کہ بنو نجار کہتے ہیں کہ ابو امامہ اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ سب سے پہلے آدمی ہیں جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کی اور اس کے بعد بیعت عامہ ہوئی، حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم لوگ ایک ایک کرکے اٹھے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے بیعت لی اور اس کے عوض جنت کی بشارت دی، دو عورتیں جو اس وقت وہاں حاضر تھیں، ان کی بیعت صرف زبانی ہوئی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی اجنبی عورت سے ہاتھ نہیں ملایا، ابن اسحاق کا یہ بھی بیان ہے کہ عبدالاشہل کہتے ہیں کہ ابوالہشیم بن التیہان رضی اللہ عنہ نے بیعت کی اور حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ براء بن معرور رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے بیعت کی۔

الغرض اسی جوش و خروش کی فضا میں 75 فدائیان مدینہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی، یہ بیعت عقبہ ثانیہ یا بیعت عقبہ کبیرہ کہلاتی ہے، جو ذی الحجہ 13 نبوت مطابق جون یا جولائی 622ء میں ہوئی۔


==================> جاری ہے ۔۔۔ 

سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں