سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 85


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 85 

بیعت کی تکمیل اور بارہ نقیب: 


جب تمام لوگ بیعت کر چکے اور بیعت کی دفعات بھی طے ہوچکیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق بارہ نقیب منتخب کئے گئے، جن میں سے 9 قبیلہ خزرج سے اور 3 قبیلہ اوس سے تھے، ان 12 نقیبوں کو دعوت و تبلیغ کے لیے اپنے اپنے قبیلہ کا سربراہ مقرر کردیا گیا جو آپ کے ارشاد کے مطابق اپنی اپنی قوم کے معاملات کے ذمہ دار ہوں اور اس بیعت کی دفعات کی تنفیذ کے لیے اپنی قوم کی طرف سے وہی ذمے دار اور مکلف ہوں، ان کے نام یہ ہیں: 

خزرج کے نقباء: 
__

1.. اسعد بن زرارہ بن عدس رضی اللہ عنہ
2.. سعد بن ربیع بن عَمرو رضی اللہ عنہ
3.. عبداللہ بن رواحہ بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ
4.. رافع بن مالک بن عجلان رضی اللہ عنہ
5.. براء بن معرور بن صخر رضی اللہ عنہ
6.. عبداللہ بن عَمرو بن حرام رضی اللہ عنہ
7.. عبادہ بن صامت بن قیس رضی اللہ عنہ
8.. سَعد بن عُبادہ بن دلیم رضی اللہ عنہ
9.. مُنذر بن عَمرو بن خنیس رضی اللہ عنہ

اوس کے نقباء: 
_

1.. اُسید بن حضیر بن سماک رضی اللہ عنہ
2.. سعد بن خیثمہ بن حارث رضی اللہ عنہ
3.. رِفَاعہ بن عبد المنذر بن زبیر رضی اللہ عنہ

جب ان نقباء کا انتخاب ہوچکا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:"آپ لوگ اپنی قوم کے جملہ معاملات کے کفیل ہیں، جیسے حواری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جانب سے کفیل ہوئے تھے اور میں اپنی قوم یعنی مسلمانوں کا کفیل ہوں۔"

معاہدہ مکمل ہوچکا تھا اور اب لوگ بکھرنے ہی والے تھے کہ ایک شیطان کو اس کا پتہ لگ گیا، چونکہ یہ انکشاف بالکل آخری لمحات میں ہوا تھا اور اتنا موقع نہ تھا کہ یہ خبر چپکے سے قریش کو پہنچا دی جائے اور وہ اچانک اس اجتماع کے شرکاء پر ٹوٹ پڑیں اور انہیں گھاٹی ہی میں جالیں، اس لیے شیطان نے جھٹ ایک اونچی جگہ کھڑے ہو کر نہایت بلند آواز سے پکار لگائی: "خیمے والو! محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھو، اس وقت بد دین اس کے ساتھ ہیں اور تم سے لڑنے کے لیے جمع ہیں۔"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "یہ اس گھاٹی کا شیطان ہے، او اللہ کے دشمن سن! اب میں تیرے لیے جلد ہی فارغ ہو رہا ہوں۔" اس کے بعد آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ وہ اپنے ڈیروں پر چلے جائیں۔

اس شیطان کی آواز سن کر حضرت عباس سے عبادہ بن نضلہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے! آپ چاہیں تو ہم کل اہل منیٰ پر اپنی تلواروں کے ساتھ ٹوٹ پڑیں۔"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "ہمیں اس کا حکم نہیں دیا گیا ہے، بس آپ لوگ اپنے ڈیروں میں چلے جائیں۔" اس کے بعد لوگ واپس جاکر سو گئے، یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔

یہ خبر قریش کے کانوں تک پہنچی تو غم والم کی شدت سے ان کے اندر کہرام مچ گیا، کیونکہ اس جیسی بیعت کے جو نتائج ان کی جان ومال پر مرتب ہوسکتے تھے، اس کا انہیں اچھی طرح اندازہ تھا، چنانچہ صبح ہوتے ہی ان کے رؤساء اور اکابر کے ایک بھاری بھرکم وفد نے اس معاہدے کے خلاف سخت احتجاج کے لیے اہل یثرب کے خیموں کا رخ کیا اور یوں عرض پرداز ہوا: "خزرج کے لوگو! ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ لوگ ہمارے اس صاحب کو ہمارے درمیان سے نکال لے جانے کے لیے آئے ہیں اور ہم سے جنگ کرنے کے لیے اس کے ہاتھ پر بیعت کررہے ہیں، حالانکہ کوئی عرب قبیلہ ایسا نہیں جس سے جنگ کرنا ہمارے لیے اتنا زیادہ ناگوار ہو جتنا آپ حضرات سے ہے۔"

لیکن چونکہ مشرکین خزرج اس بیعت کے بارے میں سرے سے کچھ جانتے ہی نہ تھے، کیونکہ یہ مکمل راز داری کے ساتھ رات کی تاریکی میں زیر عمل آئی تھی، اس لیے ان مشرکین نے اللہ کی قسم کھا کھا کر یقین دلایا کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں ہے، ہم اس طرح کی کوئی بات سرے سے جانتے ہی نہیں،  بالآخر یہ وفد عبداللہ بن اُبی ابن سلول کے پاس پہنچا، وہ بھی کہنے لگا: "یہ باطل ہے، ایسا نہیں ہوا ہے اور یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ میری قوم مجھے چھوڑ کر اس طرح کا کام کر ڈالے، اگر میں یثرب میں ہوتا تو بھی مجھ سے مشورہ کیے بغیر میری قوم ایسا نہ کرتی۔"

باقی رہے مسلمان تو انہوں نے کنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھا اور چپ سادھ لی، ان میں سے کسی نے ہاں یا نہیں کے ساتھ زبان ہی نہیں کھولی، آخر رؤساء قریش کا رجحان یہ رہا کہ مشرکین کی بات سچ ہے، اس لیے وہ نامراد واپس چلے گئے۔

رؤساء مکہ تقریباً اس یقین کے ساتھ پلٹے تھے کہ یہ خبر غلط ہے، لیکن اس کی کرید میں وہ برابر لگے رہے، بالآخر انہیں یقینی طور پر معلوم ہوگیا کہ خبر صحیح ہے اور بیعت ہوچکی ہے، لیکن یہ پتہ اس وقت چلا جب حجاج اپنے اپنے وطن روانہ ہوچکے تھے، اس لیے ان کے سواروں نے تیز رفتاری سے اہل یثرب کا پیچھا کیا، لیکن موقع نکل چکا تھا، البتہ انہوں نے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اور منذر بن عمرو رضی اللہ عنہ کو دیکھ لیا اور انہیں جا گھیرا، لیکن منذر رضی اللہ عنہ زیادہ تیز رفتار ثابت ہوئے اور نکل گئے، البتہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ پکڑ لیے گئے اور ان کا ہاتھ گردن کے پیچھے انہیں کے کجاوے کی رسی سے باندھ دیا گیا، پھر انہیں مارتے پیٹتے اور بال نوچتے ہوئے مکہ لے جایا گیا،  لیکن وہاں مطعم بن عدی اور حارث بن حرب بن امیہ نے آ کر چھڑا دیا، کیونکہ ان دونوں کے جو قافلے مدینے سے گزرتے تھے وہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ ہی کی پناہ میں گزرتے تھے، ادھر انصار ان کی گرفتاری کے بعد باہم مشورہ کر رہے تھے کہ کیوں نہ دھاوا بول دیا جائے؟ مگر اتنے میں وہ دکھائی پڑگئے، اس کے بعد تمام لوگ بخیریت مدینہ پہنچ گئے۔

یہی عقبہ کی دوسری بیعت ہے، جسے بیعتِ عقبہ کُبریٰ کہا جاتا ہے، یہ بیعت ایک ایسی فضا میں زیر عمل آئی جس پر محبت و وفاداری، منتشر اہلِ ایمان کے درمیان تعاون وتناصر، باہمی اعتماد اور جاں سپاری وشجاعت کے جذبات چھا ئے ہوئے تھے، چنانچہ یثربی اہلِ ایمان کے دل اپنے کمزور مکی بھائیوں کی شفقت سے لبریز تھے، ان کے اندر ان بھائیوں کی حمایت کا جوش تھا اور ان پر ظلم کرنے والوں کے خلاف غم وغصہ تھا، ان کے سینے اپنے اس بھائی کی محبت سے سرشار تھے جسے دیکھے بغیر محض للہ فی اللہ اپنا بھائی قرار دے لیا تھا۔

اور یہ جذبات واحساسات محض کسی عارضی کشش کا نتیجہ نہ تھے جو دن گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہوجاتی ہے، بلکہ اس کا منبع ایمان باللہ، ایمان بالرسول اور ایمان بالکتاب تھا، یعنی وہ ایمان جو ظلم وعدوان کی کسی بڑی سے بڑی قوت کے سامنے سرنگوں نہیں ہوتا، وہ ایمان کہ جب اس کی باد بہاری چلتی ہے تو عقیدہ وعمل میں عجائبات کا ظہور ہوتا ہے، اسی ایمان کی بدولت مسلمانوں نے صفحاتِ زمانہ پر ایسے ایسے کارنامے ثبت کیے اور ایسے ایسے آثار ونشانات چھوڑے کہ ان کی نظیر سے ماضی وحاضر خالی ہیں اور غالباً مستقبل بھی خالی ہی رہے گا۔


==================> جاری ہے ۔۔۔ 

سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں