سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 91


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 91 

گھر سے غارثور تک: 


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 28 صفر 14 نبوت مطابق 12 ستمبر 622ء کی درمیانی رات اپنے مکان سے نکل کر جان ومال کے سلسلے میں اپنے سب سے قابل اعتماد ساتھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لائے اور ان کے ہمراہ مکہ سے نکلے اور نکلتے ہوئے حزدرہ کے مقام پر کعبۃ اللہ کی طرف منہ کیا اور بڑے دکھ سے فرمایا:  

"اے مکہ! اللہ کی قسم! تو مجھے روئے زمین پر سب سے زیادہ محبوب ہے اور خدا کو بھی اپنی زمین میں تو ہی سب سے بڑھ کر محبوب ہے، اگر تیرے باشندوں نے مجھے نہ نکالا ہوتا تو میں کبھی تجھے نہ چھوڑتا۔

چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم تھا کہ قریش پوری جانفشانی سے آپ کی تلاش میں لگ جائیں گے اور جس راستے پر فوراً نظر اٹھے گی، وہ مدینہ کا کاروانی راستہ ہوگا جو شمال کے رخ پر جاتا ہے، اس لیے آپ نے وہ راستہ اختیار کیا جو اس کے بالکل الٹ تھا، یعنی یمن جانے والا راستہ جو مکہ کے جنوب میں واقع ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس راستے پر کوئی پانچ میل کا فاصلہ طے کیا اور اس پہاڑ کے دامن میں پہنچے جو ثور کے نام سے معروف ہے، یہ نہایت بلند , پرپیچ اور مشکل چڑھائی والا پہاڑ ہے، یہاں پتھر بھی بکثرت ہیں جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں پاؤں زخمی ہوگئے اور کہا جاتا ہے کہ آپ نشان قدم چھپانے کے لیے پنجوں کے بل چل رہے تھے، اس لیے آپ کے پاؤں زخمی ہوگئے، بہرحال وجہ جو بھی رہی ہو، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پہاڑ کے دامن میں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اٹھالیا اور دوڑتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی پر ایک غار کے پاس جا پہنچے جو تاریخ میں ''غارِثور'' کے نام سے معروف ہے۔

غار کے پاس پہنچ کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: "اللہ کے لیے ابھی آپ اس میں داخل نہ ہوں، پہلے میں داخل ہو کر دیکھ لیتا ہوں، اگر اس میں کوئی (ضرر رساں) چیز ہوئی تو آپ کے بجائے مجھے اس سے سابقہ پیش آئے گا۔" چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اندر گئے اور غار کو صاف کیا، ایک جانب چند سوراخ تھے، انہیں اپنا تہبند پھاڑ کر بند کیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ اندر تشریف لائیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اندر تشریف لے گئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی آغوش میں سر رکھ کر سو گئے، اتفاق سے سامنے کا ایک سوراخ بند نہیں ہوا تھا، جسے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے پاؤں کی ایڑھی رکھ کر بند کیا، اس سوراخ میں ایک سانپ (یا کوئی زہریلا کیڑا) رہتا تھا،  جس نے آپ رضی اللہ عنہ کو ڈس لیا، مگر اس ڈر سے ہلے بھی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جاگ نہ جائیں، لیکن درد و تکلیف کی شدت سے ان کے آنسو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے پر ٹپک گئے (اور آپ کی آنکھ کھل گئی) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:  "ابوبکر! تمہیں کیا ہوا؟"

عرض کی: "میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے کسی چیز نے ڈس لیا ہے۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر لعاب دہن لگادیا اور تکلیف جاتی رہی۔ یہ بات زرین نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ پھر یہ زہر پھوٹ پڑا (یعنی موت کے وقت اس کا اثر پلٹ آیا) اور یہی موت کا سبب بنا۔ (دیکھئے مشکوٰۃ 2/556 , باب مناقب حضرت ابی بکر رضی اللہ عنہ)

یہاں دونوں حضرات نے تین راتیں یعنی جمعہ، سنیچر اور اتوار کی راتیں غار میں چھپ کر گزاریں۔ اس دوران حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی یہیں رات گزارتے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ وہ گہری سوجھ بوجھ کے مالک، سخن فہم نوجوان تھے، سحر کی تاریکی میں ان دونوں حضرات کے پاس سے چلے جاتے اور مکہ میں قریش کے ساتھ یوں صبح کرتے، گویا انہوں نے یہیں رات گزاری ہے، پھر آپ دونوں کے خلاف کے سازش کی جو کوئی بات سنتے اسے اچھی طرح یاد کرلیتے اور جب تاریکی گہری ہوجاتی تو اس کی خبر لے کر غار میں پہنچ جاتے۔

ادھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غلام "عامر بن فُہَیْرَہ" رضی اللہ عنہ بکریاں چراتے رہتے اور جب رات کا ایک حصہ گزر جاتا تو بکریاں لے کر ان کے پاس پہنچ جاتے، اس طرح دونوں حضرات رات کو آسودہ ہوکر دودھ پی لیتے، پھر صبح تڑکے ہی حضرت عامر بن فُہیرہ رضی اللہ عنہ بکریاں ہانک کر چل دیتے، تینوں رات انہوں نے یہی کیا، مزید یہ کہ حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ حضرت عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے مکہ جانے کے بعد انہیں کے نشانات قدم پر بکریاں ہانکتے تھے، تاکہ نشانات مٹ جائیں۔

ادھر قریش کا یہ حال تھا کہ جب منصوبۂ قتل کی رات گزر گئی اور صبح کو یقینی طور پر معلوم ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں تو ان پر گویا جنون طاری ہوگیا، انہوں نے سب سے پہلے اپنا غصہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر اتارا، آپ کو گھسیٹ کر خانہ کعبہ لے گئے اور ایک گھڑی زیر حراست رکھا کہ ممکن ہے ان دونوں کی خبر لگ جائے، لیکن جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کچھ حاصل نہ ہوا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا برآمد ہوئیں، ان سے پوچھا: "تمہارے ابا کہاں ہیں؟"

انہوں نے کہا: "واللہ! مجھے معلوم نہیں کہ میرے ابا کہاں ہیں۔" اس پر خبیث ابوجہل نے ہاتھ اٹھا کر ان کے رخسار پر اس زور کا تھپڑ مارا کہ ان کے کان کی بالی گرگئی، اس کے بعد قریش نے ایک ہنگامی اجلاس کرکے یہ طے کیا کہ ان دونوں کو گرفتار کرنے کے لیے تمام ممکنہ وسائل کام میں لائے جائیں، چنانچہ مکے سے نکلنے والے تمام راستوں پر خواہ وہ کسی بھی سمت جارہا ہو، نہایت کڑا مسلح پہرہ بٹھا دیا گیا، اسی طرح یہ اعلان عام بھی کیا گیا کہ جو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو یا ان میں سے کسی ایک کو زندہ یا مردہ حاضر کرے گا، اسے ہر ایک کے بدلے سو اونٹوں کا گراں قدر انعام دیا جائے گا۔

اس اعلان کے نتیجے میں سوار اور پیادے اور نشاناتِ قدم کے ماہر کھوجی نہایت سرگرمی سے تلاش میں لگ گئے اور پہاڑوں، وادیوں اور نشیب وفراز میں ہر طرف بکھر گئے، لیکن نتیجہ اور حاصل کچھ نہ رہا، تلاش کرنے والے غار کے دہانے تک بھی پہنچے، لیکن اللہ اپنے کام پر غالب ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

"میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غار میں تھا، سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگوں کے پاؤں نظر آرہے ہیں، میں نے کہا: "اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اگر ان میں سے کوئی شخص محض اپنی نگاہ نیچی کردے تو ہمیں دیکھ لے گا، مجھے اپنی جان کا غم نہیں، اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو اُمت ہلاک ہو جائے گی۔"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "ابوبکر! خاموش رہو، (ہم ) دو ہیں جن کا تیسرا اللہ ہے، ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: "ابوبکر! ایسے دو آدمیوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہے؟'' وہ غار پر گھومتے رہے، لیکن تقدیر الہٰی یہ تھی کہ وہ لوگ دیکھ نہ سکیں۔

یہاں یہ نکتہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اضطراب اپنی جان کے خوف سے نہ تھا، بلکہ اس کا واحد سبب وہی تھا جو اس روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب قیافہ شناسوں کو دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آپ رضی اللہ عنہ کا غم فزوں تر ہوگیا اور آپ نے کہا: "اگر میں مارا گیا تو میں محض ایک آدمی ہوں، لیکن آگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قتل کردیے گئے تو پوری امت ہی غارت ہوجائے گی۔"

اور اسی موقع پر ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا: "غم نہ کرو، یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے۔"

حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک معجزہ تھا جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مشرف فرمایا، چنانچہ تلاش کرنے والے اس وقت واپس پلٹ گئے، جب آپ کے درمیان اور ان کے درمیان چند قدم سے زیادہ فاصلہ باقی نہ رہ گیا تھا۔

انعام کی لالچ میں کئی لوگ تلاش میں نکلے تھے، بنی مدلج کا سردار "سُراقہ بن مالک بن جعشم" بھی تیر کمان لے کر عود نامی گھوڑے پر سوار ہوا اور تیر کمان لے کر آپ کی تلاش میں نکلا، راستہ میں ٹھوکر لگنے سے گھوڑا گر گیا، عرب کے قاعدہ کے مطابق اس نے ترکش سے فال کے تیر نکالے کہ تعاقب کرنا چاہیے یا نہیں، فال الٹی نکلی مگر لالچ میں گھوڑا دوڑایا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ چو طرف نظر رکھے ہوئے تھے، گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز سن کر عرض کیا: "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کوئی ہمارے تعاقب میں آرہا ہے۔" حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "گھبرانے کی ضرورت نہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔"

سُراقہ کے گھوڑے نے دوبارہ ٹھوکر کھائی تو اس نے پھر فال دیکھی جو اس کی مرضی کے خلاف نکلی، مگر سو اونٹ کا لالچ کچھ کم نہ تھا، پھر جب وہ گھوڑے پر سوار ہوکر بڑھا تو ٹھوکر کھا کر گرا اور اب کی مرتبہ گھوڑے کے پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے، اب ہمت ٹوٹ گئی اور سمجھ گیا کہ غیبی طاقت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محافظ ہے، قریب آکر امان طلب کی اور اپنی گستاخی کی معافی چاہی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی تو زمین نے گھوڑے کے پاؤں چھوڑ دئیے، عرض کیا: "مجھے امان نامہ عطا ہو۔" حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر امان کا فرمان لکھ کر دیا، جسے سُراقہ نے محفوظ رکھا اور آٹھ سال بعد فتح مکہ، حنین اور طائف کے غزوات کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس ہوئے اور جعرانہ میں مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے تو اُس وقت سُراقہ نے حاضر ہو کر امان نامہ پیش کیا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مالِ غنیمت میں سے بہت کچھ عطا فرمایا، سُراقہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ سلوک سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرلیا، جب جانے لگے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "وہ بھی کیا وقت ہوگا، جب تم کسریٰ کے کنگن پہنو گے۔" حیران ہو کر پوچھا: "کسریٰ شہنشاہ ایران کے کنگن"؟ فرمایا: "ہاں!"

بعد کے واقعات نے بتلایا کہ خلیفہ دوم حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ایران فتح کرکے وہاں کی ساری دولت مدینہ روانہ کی، اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سُراقہ رضی اللہ عنہ کو طلب فرمایا اور حکم دیا کہ کسریٰ کے کنگن اسے پہنائے جائیں، پھر زرِبفت کا کمر پٹہ، ہیروں اور جواہرات سے مرصّع تاج پہنایا گیا اور فرمایا: "ہاتھ اٹھاؤ اور کہو! تعریف ہے اس اللہ کی جس نے یہ چیزیں کسریٰ بن ہرمزسے چھین لیں، جو کہتا تھا کہ میں لوگوں کا رب ہوں اور انہیں بنی مدلج کے ایک بدو سُراقہ بن مالک بن جعشم کو پہنا دیں۔" حضرت عمر رضی اللہ عنہ ساتھ ساتھ اللہ اکبر کی تکبیر کہتے رہے۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں