سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 73


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 73 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح: 


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں، والدہ کا نام زینب بنت عویمر رضی اللہ عنہا اور کنیت اُمّ رومان تھی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی نسبت سے اُم عبداللہ کنیت کرتی تھیں، آپ رضی اللہ عنہا پہلے جبیر بن مطعم کے صاحبزادے سے منسوب تھیں۔ (سیرت احمد مجتبیٰ میں مطعم بن عدی کا بیٹا لکھا گیا ہے)

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نکاح کی تحریک کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رضامندی ظاہر کی، خولہ رضی اللہ عنہا نے ام رومان رضی اللہ عنہا سے کہا تو انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جبیر بن مطعم سے وعدہ کرچکا ہوں اور میں نے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی، لیکن مطعم نے خود اس بناء پر انکار کردیا کہ اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کے گھر آگئیں تو گھر میں اسلام کا قدم آجائے گا، اس طرح وہ بات ختم ہوگئی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ رضی اللہ عنہا کا نکاح کردیا، چار سو درہم مہر قرار پایا، لیکن مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ازواج مطہرات کا مہر پانچ سو درہم ہوتا تھا۔

عقد کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کے متعلق علماء میں اختلاف پایا جاتا ہے، جمہور کے مطابق نکاح کے وقت عمر 6 سال اور رخصتی کے وقت 9 سال تھی، جبکہ کچھ علماء اس سے سخت اختلاف کرتے ہیں اور ان کے نزدیک نکاح کے وقت عمر 15 یا 16 سال اور رخصتی کے وقت 19 سال تھی۔ واللہ اعلم۔

حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے والدین کا گھر تو پہلے ہی نور اسلام سے منور تھا، کم عمری ہی میں انہیں کاشانہٴ نبوت تک پہنچا دیا گیا، تاکہ ان کی سادہ لوح دل پر اسلامی تعلیم کا گہرا نقش مرتسم ہوجائے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے اپنی اس نوعمری میں کتاب وسنت کے علوم میں گہری بصیرت حاصل کی، اسوۂ حسنہ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعمال و ارشادات کا بہت بڑا ذخیرہ اپنے ذہن میں محفوظ رکھا اور درس و تدریس اور نقل و روایت کے ذریعہ سے اُسے پوری امت کے حوالہ کردیا، حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے اپنے اقوال و آثار کے علاوہ اُن سے دوہزار دو سو دس (2210) مرفوع احادیث صحیحہ مروی ہیں اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر صحابہ وصحابیات میں سے کسی کی بھی تعدادِ حدیث اس سے زائد نہیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جیسی ذہین خاتون کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نکاح ہونے میں منشائے ربّانی یہ تھا کہ وہ کمی جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قریب ہونے میں عام خواتین کو مانع تھی، وہ اس ذاتِ مقدس سے پوری ہو جائے، یہی وجہ تھی کہ خواتین زیادہ تر اپنے مسائل آپ رضی اللہ عنہا ہی کے توسط سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گوش گزار کرتی تھیں یا پھر وہ نمائندہ بن کر مخصوص مسائل کے بارے میں کُرید کُرید کر سوالات کرتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا کی ذات سے اُمت کو ایک تہائی علم فقہ ملا۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بے شمار فضیلتیں ہیں، اس کے علاوہ اُمت کو ان کے ذریعہ بے شمار سعادتیں ملیں، تیمّم کی سہولت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وجہ سے ملی، حضرت جبریل علیہ السلام نے آپ کو دوبار سلام کیا اور جبریل علیہ السلام کو دو بار ان کی اصلی حالت میں دیکھا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اس بات کی خوش خبری دی کہ وہ جنت میں بھی ان کی زوجہ ہوں گی۔

آپ رضی اللہ عنہا سے کوئی اولاد نہیں ہوئی، 66 سال کی عمر میں 17 رمضان 57 ہجری کو مدینہ میں وفات پائی، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور رات کے وقت جنت البقیع میں تدفین عمل میں آئی۔


==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں