سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 82


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 82 

پہلی بیعت عقبہ:


جیسا کہ پہلے گزر چکا کہ نبوت کے گیارہویں سال موسم حج میں یثرب کے چھ آدمیوں نے اسلام قبول کرلیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وعدہ کیا تھا کہ اپنی قوم میں جاکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی تبلیغ کریں گے۔

جب یہ لوگ اسلام قبول کرکے یثرب لوٹے تو ہر گلی کوچہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ ہونے لگا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگلے سال موسمِ حج آیا (یعنی ذی الحجہ 12 نبوی بمطابق جولائی 621ء) تو بارہ آدمی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان میں سے پانچ تو اُنہیں چھ میں سے تھے جو سال گزشتہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر اسلام قبول کرچکے تھے، البتہ جابر بن عبداللہ بن رُیاب رضی اللہ عنہ کسی وجہ سے اس دفعہ شریک نہ ہوسکے تھے، نئے سات افراد یہ تھے: 

1.. معاذ بن الحارث رضی اللہ عنہ: قبیلۂ بنی النجار (خزرج)
2.. ذکوان بن عبد القیس رضی اللہ عنہ: بنی زریق (خزرج)
3.. عباد ہ بن صامت رضی اللہ عنہ: بنی غنم (خزرج)
4.. یزید بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ: بنی غنم کے حلیف (خزرج)
5.. عباس بن عبادہ رضی اللہ عنہ: بنی سالم (خزرج)
6.. ابوالہیثم بن التیہان رضی اللہ عنہ: بنی عبد الاشہل (اوس)
7.. عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ: بنی عمرو بن عوف (اوس)

ان میں صرف اخیر کے دو آدمی قبیلۂ اوس سے تھے: بقیہ سب کے سب قبیلۂ خزرج سے تھے۔

ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منیٰ میں عقبہ کے پاس ملاقات کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چند باتوں پر بیعت کی، یہ باتیں وہی تھیں جن پر آئندہ صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح مکہ کے وقت عورتوں سے بیعت لی گئی۔

عقبہ (ع، ق، ب تینوں کو زبر ) پہاڑ کی گھاٹی یعنی تنگ پہاڑی گزرگاہ کو کہتے ہیں، مکہ سے منیٰ آتے جاتے ہوئے منیٰ کے مغربی کنارے پر ایک تنگ پہاڑی راستے سے گزرنا پڑتا تھا، یہی گزرگاہ عَقَبَہ کے نام سے مشہور ہے، ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو جس ایک جمرہ کو کنکری ماری جاتی ہے وہ اسی گزرگاہ کے سرے پر واقع ہے، اس لیے اِسے جمرۂ عقبہ کہتے ہیں، اس جمرہ کا دوسرا نام جمرۂ کبریٰ بھی ہے، باقی دو جمرے اس سے مشرق میں تھوڑے فاصلے پر واقع ہیں۔

چونکہ منیٰ کا پورا میدان جہاں حجاج قیام کرتے ہیں ان تینوں جمرات کے مشرق میں ہے، اس لیے ساری چہل پہل ادھر ہی رہتی ہے اور کنکریاں مارنے کے بعد اس طرف لوگوں کی آمد ورفت کا سلسلہ ختم ہوجاتا تھا، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیعت لینے کے لیے اس گھاٹی کو منتخب کیا اور اسی مناسبت سے اس کو بیعت عقبہ کہتے ہیں، اب پہاڑ کاٹ کر یہاں کشادہ سڑکیں نکال لی گئی ہیں۔

عَقَبَہ کی اس بیعت کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: 

"آؤ! مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی چیزکو شریک نہ کروگے، چوری نہ کرو گے،  زنا نہ کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے، اپنے ہاتھ پاؤں کے درمیان سے گھڑ کر کوئی بہتان نہ لاؤ گے اور کسی بھلی بات میں میری نافرمانی نہ کرو گے۔ جو شخص یہ ساری باتیں پوری کرے گا، اس کا اجر اللہ پر ہے اور جو شخص ان میں سے کسی چیز کا ارتکاب کر بیٹھے گا، پھر اسے دنیا ہی میں اس کی سزادے دی جائے گی تو یہ اس کے لیے کفارہ ہوگی اور جو شخص ان میں سے کسی چیز کا ارتکاب کر بیٹھے گا، پھر اللہ اس پر پردہ ڈال دے گا تو اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے، چاہے گا تو سزا دے گا اور چاہے گا تو معاف کردے گا۔

حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی۔


==================> جاری ہے ۔۔۔ 

سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں