کفار کے تہوار اور مسلمان (اسلام سوال و جواب)


کفار کے تہواراور مسلمان
ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد
سوال: آپ برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو کرسمس کے دن یا اس سے کچھ روز بعد کرسمس کی مناسبت سے اپنے مسلم اہل خانہ کy لئے تقریبِ عشائیہ منعقد کرتے ہیں، عشائیہ کے کھانے میں ترکی چکن روسٹ، اور کرسمس کے مخصوص دیگر کھانے تیار کیے جاتے ہیں، یہ لوگ اپنے گھروں کوغباروں، کاغذ کے پھولوں سے سجاتے ہیں، اور اس تقریب میں شرکت کیلئے ہر شخص دیگر شرکاء میں سے کسی ایک کیلئے "سانتا کا خفیہ تحفہ" بھی تیار کرتا ہے، اور لوگ ان تحائف کو مطلوبہ افراد تک پہنچانے کیلئے تقریب میں لیکر آتے ہیں، لیکن کسی کو اپنے بارے میں نہیں بتلاتے، ("سانتا کا خفیہ تحفہ" کرسمس منانے والے غیر مسلموں میں پذیرائی حاصل کرنے والی ایک نئی رسم ہے، جو کہ Santa Claus [کرسمس کا بابا] کے افسانوی کردار سے متعلق نظریات سے منسلک ہے) تو کیا ایسا کرنا جائز ہے یا حرام؟ واضح رہے کہ اس تقریب صرف مسلمان برادری ہی شرکت کرسکتی ہے۔

مذکورہ تقریبات کے حرام ہونے کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں کفار کی مشابہت پائی جاتی ہے، اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ مسلمانوں کی عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ کوئی عید نہیں ہے، اور ہفت روزہ عید جمعہ کا دن ہے، چنانچہ ان کے علاوہ کوئی بھی جشن ، تہوار اسلام میں  منع ہے،اور  یہ اضافی جشن و تہوار  دو حال سے خالی نہیں ہیں:

1-  بدعت: یہ اس صورت میں ہوگا کہ اس جشن اور تہوار کو قربِ الہی کے لئے منایا جائے، مثلاً: عید میلاد النبی۔

2- کفار سے مشابہت: جب اس جشن یا تہوار کو رسم و رواج کے طور پر منایا جائے عبادت کے طور پر مت منایا جائے؛  چونکہ خود ساختہ تہوار منانا اہل کتاب کا شیوہ ہے، اور ہمیں ان کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے، پھر جب عام تہوارات منانا ان سے مشابہت ہے تو اہل کتاب کے ساتھ مختص تہوارمنانا اور ان میں شرکت کرنا کیسا ہوگا!!

کرسمس کے وقت گھروں کو غباروں سے مزین کرنا  کفار کی عید میں کھلم کھلا شرکت کا اظہار ہے۔

اور ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ ان ایام کو جشن، زیب و زینت، اور کھانے پینے کے لئے مختص مت کرے، وگرنہ وہ بھی کفار کے تہوار میں شریک تصور ہوگا، اور یہ کام حرام ہے، جس  کی حرمت میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اسی طرح مسلمانوں پر  کرسمس کی مناسبت سے تقاریب کرنا، تحائف کا تبادلہ ، مٹھائیوں کی تقسیم ، کھانوں کی تیاری، اور تعطیل عام کرتے ہوئے کفار  کے ساتھ مشابہت اپنانا  حرام ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے کہ : (جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  نے اپنی کتاب (اقتضاء الصراط المستقیم مخالفۃ أصحاب الجحیم)میں کہا ہے کہ: کفار کے کچھ تہواروں میں شرکت سے انہیں اپنے باطل نظریات پر قائم رہنے کی خوشی محسوس ہوتی ہے، اور بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ  کچھ لوگ ایسے مواقع کا غلط فائدہ اٹھا کر کمزور ایمان لوگوں کو بہکا دیں" ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی گفتگو مکمل ہوئی۔

ایسا کام کرنے والا شخص گناہگار ہے، اور اس میں کسی کا دل رکھنے کے لئے ، یا  دلی چاہت کی بنا پر یا کسی سے حیا کرتے ہوئے شرکت کرنے والے سب لوگ گناہ گار ہونگے، کیونکہ یہ عمل دینِ الہی کے باری میں ناقابل برداشت سستی ہے، اور کفار کے لئے اپنے گمراہ عقائد پر مضبوط ہونے کی دلیل ہے، وہ مسلمانوں کی شرکت سے اپنے دین پر فخر محسوس کرینگے" انتہی
"فتاوى ابن عثیمین" (3/ 44)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا اس مسئلہ کے بارے میں تفصیلی جواب ہے، جس [کے ] متن [کا ترجمہ یہ ] ہے:
آپ سے  کچھ مسلمانوں کی طرف سے نوروز کے دن عیسائیوں کے لئے کھانا بنانا، رسمِ "غطاس" [عیسائیوں کے ہاں مقدس جگہ پر نہانے کی رسم] "جمعرات کی دال" [مخصوص جمعرات کو تیار کیا جانے والا اناج کا کھانا] "مقدس ہفتے کا دن" [عید الفصح کے بعد عیسائیوں کے ہاں ہفتے کا مقدس دن] وغیرہ منانا اور ان  تہواروں کے لئے معاون اشیاء کی خرید و فروخت کرنے کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا یہ کام کرنےمسلمانوں کے لئے جائز ہیں؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"الحمد للہ:
کسی بھی مسلمان کے لئے عیسائیوں کے مخصوص  اعمال میں ان کی  مشابہت  کرنا جائز نہیں ہے، مثلا ان جیسے کھانے بنانا، لباس پہننا، نہانا، آگ جلانا، شمعیں روشن کرنا، عام تعطیل کرنا وغیرہ سب منع ہیں، کھانے کی دعوت کرنا، تحائف دینا، اور ان تہواروں کے لئے معاون بننے والی اشیاء فروخت کرنا بھی جائز نہیں ہے، بلکہ بچوں کو ان کی عید کے دنوں میں [انہی جیسے]کھیل کود کی اجازت دینا، اور زیب و زینت اختیار کرنا بھی جائز نہیں ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کے لئے عیسائیوں کے کسی بھی تہوار اور شعار کو اپنانا جائز نہیں ہے، بلکہ  انکی عید کے دن مسلمانوں کے ہاں عام دنوں کی طرح گزارے جائیں، مسلمان ان کے امتیازی  امور نہیں اپنا سکتے۔۔۔، گزشتہ امور کو مسلمانوں کی طرف سے اپنانے کے بارے میں حرمت کا حکم تمام علمائے  کرام کا متفقہ ہے۔

بلکہ کچھ علمائے کرام کا کہنا ہے کہ ان کاموں کے کرنے سے انسان کافر بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ ان کاموں کی وجہ سے کفریہ شعائر کی تعظیم ہوتی ہے، اور کچھ علماء کا کہنا ہے کہ : جو شخص ان کی عید کے دن جانور ذبح کرے گویا کہ اس نے خنزیر ذبح  کیا۔

عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: جو شخص عجمیوں کے پیچھے لگ کر نوروز، اور مہرجان کا دن مناتا ہے، اور مرتے دم تک ان کی مشابہت اختیار کرتا ہے تو وہ قیامت  کے  د ن انہی کےساتھ اٹھایا جائے گا۔

سنن ابو داود میں  ثابت بن ضحاک کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں ایک شخص نے "بوانہ" جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی،  وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوا  اور عرض کیا: "میں نے "بوانہ" جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے"تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے استفسار فرمایا: (کیا وہاں پر  جاہلیت کے دور میں کسی بت کی پوچا تو نہیں ہوتی تھی؟) اس نے کہا: "نہیں" آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے استفسار فرمایا: (کیا وہاں پر کوئی ان کا تہوار تو نہیں لگتا تھا؟) اس نے کہا: "نہیں" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (جاؤ اپنی نذر پوری کرو ، اور ایسی کوئی نذر پوری نہیں کی جاتی جس میں اللہ کی نافرمانی ہو، اور ایسی چیز کی نذر بھی پوری نہیں کی جاسکتی جو ابن آدم کی ملکیت میں نہ ہو)

حالانکہ نذر پوری کرنا واجب ہے لیکن اس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس آدمی کو اس وقت تک نذر پوری کرنے کی اجازت نہیں دی جب تک اس نے یہ نہیں بتلا دیا کہ وہاں پر کفار کا کوئی تہوار منعقد نہیں ہوتا تھا، اور آپ نے یہ بھی بتلا دیا کہ : (ایسی کوئی نذر پوری نہیں کی جاتی جس میں اللہ کی نافرمانی ہو)، چنانچہ ان کے تہوار والی جگہ پر اللہ کے لئے ذبح کرنا معصیت ہے تو انکے تہوار میں بنفسِ نفیس شرکت کتنا بڑا گناہ ہوگا؟

بلکہ امیر المؤمنین عمر بن خطاب اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ ساتھ دیگر تمام مسلم حکمرانوں کی طرف سے غیرمسلموں پر لازمی تھا کہ اپنے تہوار مسلمانوں کے درمیان اعلانیہ نہیں منائیں گے، بلکہ اپنے گھروں میں محصور ہو کر  اپنے مذہبی تہوار منائیں گے، اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کا یہ حال ہونا چاہئے تھا  لیکن  اگر خود مسلمان ایسا کرنے لگ جائیں تو پھر کیا حال ہوگا؟

اور امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہاں تک فرمایا: "عجمیوں کی زبان مت سیکھو، اور مشرکوں کے معبد خانوں میں ان کے تہوار کے دن مت جاؤ، کیونکہ ان پر اللہ کی ناراضگی نازل ہوتی ہے" اگر مشرکوں کے معبد خانوں میں سیر و سیاحت یا کسی اور غرض سے جانا منع ہے کہ وہاں اللہ کی ناراضگی نازل ہوتی ہے، تو اس شخص کا کیا حال ہو گا جو خود کفار کے شعائر میں سے اللہ کی ناراضگی کا باعث بننے والا عمل سر انجام دیتا ہے؟!

بہت سے سلف صالحین نے قرآن مجید کی آیت (والذين لا يشهدون الزور) [آیت کا مفہوم: مؤمن وہ ہیں جو غلط محفلوں میں شرکت نہیں کرتے]کی تفسیر میں کہا ہے کہ یہاں "زُور" سے مراد کفار کے تہوار ہیں،  اگر کفار  کی محفلوں میں کوئی عمل سر انجام نہ دینا ہو،  صرف حاضری پر یہ بات ہے، تو کفار کے مخصوص اعمال کرنے پر کتنا بڑی بات ہوگی؟!
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے مسند اور سنن [ابو داود] میں ہے کہ آپ نے فرمایا: (جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہے) اور ایک حدیث میں الفاظ یوں ہیں: (وہ ہم میں سے نہیں جو دوسروں [غیر مسلموں] کی مشابہت اختیار کرے) یہ حدیث جید ہے؛ چنانچہ کفار کے ساتھ عادات میں مشابہت اختیار کرنے میں  اتنی بڑی وعید ہے ، تو اس سے بڑھ کر عبادات میں مشابہت اختیار کرنے میں  کتنی بڑی وعید ہوگی؟!۔۔۔" انتہی
"الفتاوى الكبرى" (2/ 487)، مجموع الفتاوى (25/ 329)

واللہ اعلم

سوال: کفارکو انکے تہواروں میں مبارکباد دینے کا کیا حکم ہے؟ 

سب علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کرسمس یا کفار کے دیگر مذہبی تہواروں پر مبارکباد دینا حرام ہے، جیسے کہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب " أحكام أهل الذمة " میں نقل کیا ہے، آپ کہتے ہیں:

"کفریہ شعائر پر تہنیت دینا حرام ہے، اور اس پر سب کا اتفاق ہے، مثال کے طور پر انکے تہواروں اور روزوں کے بارے میں مبارکباد دیتے ہوئے کہنا: "آپ کو عید مبارک ہو" یا کہنا "اس عید پر آپ خوش رہیں" وغیرہ، اس طرح کی مبارکباد دینے سے کہنے والا کفر سے تو بچ جاتا ہے لیکن یہ کام حرام ضرور ہے، بالکل اسی طرح حرام ہے جیسے صلیب کو سجدہ کرنے پر اُسے مبارکباد دی جائے، بلکہ یہ اللہ کے ہاں شراب نوشی ، قتل اور زنا وغیرہ سے بھی بڑا گناہ ہے، بہت سے ایسے لوگ جن کے ہاں دین کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے ان کے ہاں اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں، اور انہیں احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کتنا برا کام کر رہا ہے، چنانچہ جس شخص نے بھی کسی کو گناہ، بدعت، یا کفریہ کام پر مبارکباد دی وہ یقینا اللہ کی ناراضگی مول لے رہا ہے" ابن قیم رحمہ اللہ کی گفتگو مکمل ہوئی۔

چنانچہ کفار کو انکے مذہبی تہواروں میں مبارکبا د دینا حرام ہے، اور حرمت کی شدت ابن قیم رحمہ اللہ نے ذکر کردی ہے، -حرام اس لئے ہے کہ- اس میں انکے کفریہ اعمال کا اقرار شامل ہے، اور کفار کے لئے اس عمل پر اظہار رضامندی بھی ، اگرچہ مبارکباد دینے والا اس کفریہ کام کو اپنے لئے جائز نہیں سمجھتا ، لیکن پھر بھی ایک مسلمان کے لئے حرام ہے کہ وہ کفریہ شعائر پر اظہار رضامندی کرے یا کسی کو ان کاموں پر مبارکباد دے، کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لئے اس عمل کو قطعی طور پر پسند نہیں کیا، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:

 إن تكفروا فإن الله غني عنكم ولا يرضى لعباده الكفر وإن تشكروا يرضه لكم 

ترجمہ:اگر تم کفر کرو تو بے شک اللہ تعالی تمہارا محتاج نہیں، اور (حقیقت یہ ہے کہ) وہ اپنے بندوں کے لئے کفر پسند نہیں کرتا، اور اگر تم اس کا شکر ادا کرو تو یہ تمہارے لئے اس کے ہاں پسندیدہ عمل ہے۔

اسی طرح فرمایا:

 اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام ديناً 

ترجمہ: آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کردیا ، اور تم پر اپنی نعمتیں مکمل کردیں، اور تمہارئے لئے اسلام کو بطورِ دین پسند کر لیا۔

لہذا کفار کو مبارکباد دینا حرام ہے، چاہے کوئی آپکا ملازمت کا ساتھی ہو یا کوئی اور ۔

اور اگر وہ ہمیں اپنے تہواروں پر مبارکباد دیں تو ہم اس کا جواب نہیں دیں گے، کیونکہ یہ ہمارے تہوار نہیں ہیں، اور اس لئے بھی کہ ان تہواروں کو اللہ تعالی پسند نہیں کرتا، کیونکہ یا تو یہ تہوار ان کے مذہب میں خود ساختہ ہیں یا پھر ان کے دین میں تو شامل ہیں لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ساری مخلوق کے لئے نازل ہونے والے اسلام نے ان کی حیثیت کو منسوخ کردیا ہے، اور اسی بارے میں فرمایا:

 ومن يبتغ غير الإسلام ديناً فلن يقبل منه وهو في الآخرة من الخاسرين 

ترجمہ:اور جو شخص بھی اسلام کے علاوہ کوئی دین تلاش کریگا ؛ اسے کسی صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔

چنانچہ ایک مسلمان کے لئے اس قسم کی تقاریب پر ان کی دعوت قبول کرنا حرام ہے، کیونکہ انکی تقریب میں شامل ہونا اُنہیں مبارکباد دینے سے بھی بڑا گناہ ہے۔

اسی طرح مسلمانوں کے لئے یہ بھی حرام ہے کہ وہ ان تہواروں پر کفار سے مشابہت کرتے ہوئے تقاریب کا اہتمام کریں، یا تحائف کا تبادلہ کریں، یا مٹھائیاں تقسیم کریں، یا کھانے کی ڈشیں بنائیں، یا عام تعطیل کا اہتمام کریں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو جس قوم کی مشابہت اختیار کریگا وہ اُنہی میں سے ہے)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب( اقتضاء الصراط المستقيم، مخالفة أصحاب الجحيم ) میں کہتے ہیں:

"کفار کے چند ایک تہواروں میں ہی مشابہت اختیار کرنے کی وجہ سے اُن کے باطل پر ہوتے ہوئے بھی دلوں میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے، اور بسا اوقات ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ سے ان کے دل میں فرصت سے فائدہ اٹھانے اور کمزور ایمان لوگوں کو پھسلانے کا موقع مل جائے" انتہی

مذکورہ بالا کاموں میں سے جس نے بھی کوئی کام کیا وہ گناہ گار ہے، چاہے اس نے مجاملت کرتے ہوئے، یا دلی محبت کی وجہ سے ، یا حیاء کرتے ہوئے یا کسی بھی سبب سے کیا ہو، اس کے گناہ گار ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے دین الہی کے بارے میں بلاوجہ نرمی سے کام لیا ہے، جو کہ کفار کے لئے نفسیاتی قوت اور دینی فخر کا باعث بنا ہے۔

اور اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مسلمانوں کی اپنے دین کی وجہ سے عزت افزائی فرمائے، اور انہیں اس پر ثابت قدم رہنے کی توفیق دے، اور انہیں اپنے دشمنوں پر غلبہ عطا فرمائے، بیشک وہ طاقتور اور غالب ہے۔

( مجموع فتاوى ورسائل شيخ ابن عثيمين 3/369 ) .

واللہ اعلم.


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں