سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 97


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 97

مدینہ منورہ کی داخلی آبادی کی نوعیت:

جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے، اس وقت مدینہ منورہ کا یہ حال تھا کہ چند مدنی قبائل مسلمان ہوچکے تھے اور چند خاندان مثلاً بنی خطمہ، بنی واقف، بنی وائل، بنی اُمیہ وغیرہ ایسے بھی تھے جنہوں نے اسلام کا کوئی اثر قبول نہیں کیا تھا اور چند قبائل ایسے تھے جن میں اسلام پوری طرح ہنوز پھیلا نہیں تھا اور جن قبائل میں اسلام پوری طرح دخیل ہو گیا تھا، ان کا حال یہ تھا کہ چند روز پہلے اوس و خزرج دو رقیب قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، جنگ بعاث کی خوں ریزیوں نے جس کا خون بھی ہنوز خشک نہیں ہواتھا، دونوں کو کمزور اور بے جان کردیا تھا اور ان کی قومی طاقت برباد ہوچکی تھی، اسلام نے ان دونوں کو اسلامی رشتہ "انما المومنون اخوۃ" (سب مسلمان بھائی بھائی ہیں) کے ناطے سے گرچہ باہم ملا دیا تھا، لیکن پھر بھی اس دور کے قبائلی مزاج اور عربی خصائص کی بناء پر قبائلی عصبیت کے نام پر مشتعل ہوجانے کا مادہ موجود تھا، جس سے دشمن اسلام فائدہ اٹھاتے تھے۔

چنانچہ یہود نے جو انصار کے مزاج شناس تھے، ایک دفعہ انصار کو باہم لڑادینے کے لئے یہ چال چلی کہ ان کی ملی جلی مجلس میں جنگ بعاث کا ذکر چھیڑ دیا اور اتنا بھڑکایا کہ معاملہ تیز و تند گفتگو سے بڑھ کر یہاں تک پہنچ گیا کہ مقابلہ کے لئے اسی وقت ایک سیاہ پتھریلا مقام مقرر ہوگیا اور دونوں طرف سے "ہتھیار لاؤ، ہتھیار لاؤ" کی چیخ پکار ہوگئی اور دم کے دم میں دونوں طرف کے لوگ میدان میں نکل پڑے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین کو ساتھ لئے ہوئے میدان جنگ میں پہنچ گئے اور فرمایا :

"اے مسلمانوں کے گروہ! اللہ سے ڈرو، اللہ سے خوف کرو، کیا جاہلیت کے دعوے پر لڑے پڑتے ہو، حالانکہ میں تم میں موجود ہوں، تمہیں ﷲ نے اسلام کی ہدایت دی اور تمہیں عزت دی اور اسلام کی وجہ سے جاہلیت کی باتیں تم سے الگ کردیں اور اس کے ذریعہ تمہیں کفر سے نجات دلائی اور اس کے ذریعہ تمہارے اندر الفت و محبت پیدا کردی۔" (ابن ہشام)

پھر ان انصار کے ساتھ مدینہ منورہ میں ہزاروں کی تعداد میں ہمسایہ کی حیثیت سے یہود کے تین قبیلے رہتے تھے، ان میں بھی آپس میں رقابتیں تھیں، بنو قریظہ کو بنو نضیر کے لوگ کم رتبہ اور نیچی نگاہ سے دیکھتے تھے، چنانچہ بنو نضیر کا کوئی آدمی بنو قریظہ کے آدمی کو قتل کردیتا تھا تو بنونضیر اس کا آدھا خوں بہا دیتے تھے اور جب بنو قریظہ کا کوئی آدمی بنو نضیر کے آدمی کو قتل کردیتا تھا تو بنو نضیر اس سے پورا خوں بہا لیتے تھے۔

قبیلہ بنو قینقاع یہودیوں میں اپنے کو سب سے زیادہ جری اور بہادر سمجھتے تھے اور اپنے مقابلہ میں کسی کو آنکھ نہیں لگاتے تھے، ان کے پاس ہمیشہ اسلحہ جنگ کے ذخیرے مہیا رہتے تھے، ان کے غرور کا یہ حال تھا کہ جب مسلمان غزوہ بدر سے فتح و ظفر کا علم لہراتے ہوئے مدینہ منورہ پہنچے تو انہوں نے کہا: "بیچارے مکہ کے قریش لڑنا کیا جانیں، ہم سے مقابلہ پڑے تو معلوم ہو" مگر یہ تینوں قبیلے اسلام دشمنی میں ایک رائے تھے اور اہل کتاب اور توحید کے دعوے دار ہونے کے باوجود بت پرست مشرکین عرب کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ مذہبی حیثیت سے یہ کفار مسلمانوں سے اچھے ہیں۔

"اے پیغمبر! کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا، جن کو کتاب الٰہی سے حصہ دیا گیا تھا کہ وہ بتوں اور شیطانوں کو مانتے ہیں اور کافروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ مسلمانوں کی بہ نسبت زیادہ سیدھے راستہ پر ہیں" (سورہ نساء :51)

ان کے علاوہ بت پرست منافقین کی بھی ایک اچھی خاصی جماعت تھی، جس کی سیادت عبدﷲ بن اُبی کو حاصل تھی، ان سب کے علاوہ مہاجرین کی جماعت تھی جو بیسیوں قبائل سے تعلق رکھتے تھے۔

حاصل یہ کہ مدینہ منورہ اس وقت اپنی گوناگوں آبادی کے لحاظ سے مجموعہ اضداد تھا اور ایک عجیب طرح کے اندرونی خلفشار اور انتشار میں مبتلا تھا اور بظاہر ان تمام عناصر میں وفاقی وحدت پیدا کرنی ناممکن معلوم ہوتی تھی۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

الرحیق المختوم مولانا صفی الرحمن مبارکپوری

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں