سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 120


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 120

زکوٰۃ کی فرضیت:

چوتھا اہم واقعہ زکو'ۃ کی فرضیت کا ہے:
زکو'ة اسلام کے معاشی نظام کا ایک اہم حصہ ہے، جس سے مملکت کی بڑی تعداد اور انسانیت کا بڑا طبقہ مستفید ہوتا ہے، غرباء ومساکین کی خبرگیری صاحب حیثیت مسلمانوں پر فرض قرار دینا اسلام کی ایک خصوصیت ہے۔

فرضیتِ زکوٰۃ کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے، عام خیال یہ ہے کہ رمضان کے روزوں کے بعد فرض ہوئی، بعض مؤرخ لکھتے ہیں کہ 8 ھ میں فتح مکہ کے بعد فرض ہوئی، ارکان اسلام میں کلمۂ شہادت اور صلوٰۃ کے بعد زکوٰۃ دین کا تیسرا اہم رکن ہے، قرآن مجید میں صلوٰۃ اور زکواۃ کا تذکرہ ساتھ ساتھ ہے۔

فقہی اصطلاح میں زکوٰۃ اس مالی امداد کو کہتے ہیں جو ہر صاحب نصاب مسلمان اپنی دولت پر سال میں صرف ایک دفعہ مخصوص مقدار میں ادا کرتا ہے، زکوٰۃ کی شرح اور قواعد و ضوابط عین عدل وانصاف پر مبنی ہیں کہ محتاجوں اور ضرورت مندوں کو دی جاتی ہے، جس سے امت میں طبقہ وارانہ منافرت پیدا نہیں ہوتی۔

زکوٰۃ مالی ایثار ہے اور اس کے ذریعہ سے اصلاح باطن اور معاشرہ کی مادی فلاح و بہبود مقصود ہے، قرآن مجید سورہ توبہ میں زکوٰۃ کی تقسیم کے لئے آٹھ مدات بیان کئے گئے ہیں۔

"صدقے صرف فقیروں کے لئے ہیں اورمسکینوں کے لئے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے اور ان کے لئے جن کی دلجوئی کرنی ہو اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لئے اور اللہ کی راہ میں اور راہرو مسافروں کے لئے فرض ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم و حکمت والا ہے-" (سورۂ توبہ : 60)

ان مدات کی تشریح درج ذیل ہے :

(۱) فقیر: یعنی وہ لوگ جن کے پاس کچھ نہ ہو۔
(۲) مسکین: یعنی وہ جن کے پاس ضرورت کے لائق نہ ہو۔
(۳) عامل: وہ لوگ جو حکو مت کی طرف سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے مقرر ہوں۔
(۴) مؤلفۃ القلوب: وہ لوگ جن کے اسلام قبول کرنے کی اُمید ہو یا جو اسلام میں کمزور ہوں۔
(۵) رقاب: یعنی غلام یا قیدی کو مال دےکر آزاد کرایا جائے۔
(۶) غارم: یعنی قرض دار کا قرض ادا کیا جائے۔
(۷) فی سبیل اللہ: یعنی جہاد وغیرہ میں کام کرنے والوں کی مدد کی جائے۔
(۸) ابن السبیل: یعنی مسافر اگر محتاج ہو تو اس کی بھی مدد کی جائے۔

قرآن کے مقرر کردہ یہ آٹھ مدات بڑی اہمیت کے حامل ہیں، ان کے اندر انسانی زندگی کی بہت سی انفرادی اور اجتماعی ضروریات آگئی ہیں، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ان مدات کی معنویت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ ان مدات میں بنیادی طور پر دو باتوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔

(۱) ایک یہ کہ مسلمانوں کی ضروریات کی تکمیل۔
(۲) اسلام کی نصرت و تقویت۔

فقراء ومساکین، عاملین زکوٰة، غلامی یا قرض میں مبتلا شخص یا مسافر کی امداد میں عام مسلمانوں کی ضرورت کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور مجاہدین اور مؤلفة القلوب کی مالی اعانت میں اسلام کی نصرت و استحکام کا پہلو پیش نظر ہے۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ ، ج : 25 ، ص : 40)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے مدات زکوٰة کی معنویت کا تجزیہ اس طرح کیا ہے:

 مملکت اور انسانی زندگی کی ضروریات اور مسائل تو بےشمار ہیں، مگر بنیادی طور پر انسان کو اسلامی حکومت میں رہتے ہوئے تین قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

(۱) شخصی ضروریات: فقراء ومساکین، مسافر اور مقروض میں انہی ضروریات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
(۲) مسلمانوں کی اجتماعی حفاظت کا مسئلہ: اس ذیل میں مجاہدین اور عاملین آتے ہیں۔
(۳) حقیقی یا امکانی شرور وفتن کے دفاع کا مسئلہ: اس ذیل میں مؤلفة القلوب اور جرمانہ کی بعض شکلیں آتی ہیں۔ (حجة اللہ البالغہ , 2/45 , مطبوعہ رشیدیہ , دہلی)

ان چند ضمنی، لیکن اہم واقعات کا تذکرہ مکمل ہوا۔ ان شاء اللہ اگلی قسط سے غزوہ بدر کا تفصیلی بیان ہوگا۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں