سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 100


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 100

ہجرت کے وقت مدینہ کے حالات①:

ہجرت کا مطلب صرف یہی نہیں تھا کہ فتنے اور تمسخر کا نشانہ بننے سے نجات حاصل کر لی جائے، بلکہ اس میں یہ مفہوم بھی شامل تھا کہ ایک پُرامن علاقے کے اندر ایک نئے معاشرے کی تشکیل میں تعاون کیا جائے، اسی لیے ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر فرض قرار پایا تھا کہ اس وطنِ جدید کی تعمیر میں حصہ لے اور اس کی پختگی، حفاظت اور رفعتِ شان میں اپنی کوشش صرف کرے۔

یہ بات تو قطعی طور پر معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس معاشرے کی تشکیل کے امام، قائد اور رہنما تھے اور کسی نزاع کے بغیر سارے معاملات کی باگ ڈور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ہاتھ میں تھی، مدینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین طرح کے قوموں سے سابقہ درپیش تھا، جن میں سے ہر ایک کے حالات دوسرے سے بالکل جداگانہ تھے اور ہر ایک قوم کے تعلق سے کچھ خصوصی مسائل تھے جو دوسری قوموں کے مسائل سے مختلف تھے، یہ تینوں اقوام حسبِ ذیل تھیں :

1.. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکباز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی منتخب اور ممتاز جماعت۔

2.. مدینے کے قدیم اور اصلی قبائل سے تعلق رکھنے والے مشرکین جو اب تک ایمان نہیں لائے تھے۔

3.. یہود۔

الف : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تعلق سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جن مسائل کا سامنا تھا، ان کی توضیح یہ ہے کہ ان کے لیے مدینے کے حالات مکے کے حالات سے قطعی طور پر مختلف تھے، مکے میں اگرچہ ان کا کلمہ ایک تھا اور ان کے مقاصد بھی ایک تھے، مگر وہ خود مختلف گھرانوں میں بکھرے ہوئے تھے اور مجبور و مقہور اور کمزور تھے، ان کے ہاتھ میں کسی طرح کا کوئی اختیار نہ تھا، سارے اختیار دشمنان دین کے ہاتھوں میں تھے اور دنیا کا کوئی بھی انسانی معاشرہ جن اجزاء اور لوازمات سے قائم ہوتا ہے، مَکہ کے مسلمانوں کے پاس وہ اجزاء سرے سے تھے ہی نہیں کہ ان کی بنیاد پر کسی نئے اسلامی معاشرے کی تشکیل کرسکیں، اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مکی سورتوں میں صرف اسلامی مبادیات کی تفصیل بیان کی گئی ہے اور صرف ایسے احکامات نازل کیے گئے ہیں جن پر ہر آدمی تنہا عمل کرسکتا ہے، اس کے علاوہ نیکی بھلائی اور مکارمِ اخلاق کی ترغیب دی گئی ہے اور رَذِیل وذلیل کاموں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔

اس کے برخلاف مدینے میں مسلمانوں کی زمامِ کار پہلے ہی دن سے خود ان کے اپنے ہاتھ میں تھی، ان پر کسی دوسرے کا تسلّط نہ تھا، اس لیے اب وقت آگیا تھا کہ مسلمان تہذیب وعمرانیات، معاشیات واقتصادیات، سیاست وحکومت اور صلح وجنگ کے مسائل کا سامنا کریں اور ان کے لیے حلال وحرام اور عبادات واخلاق وغیرہ مسائل زندگی کی بھر پور تنقیح کی جائے۔

وقت آگیا تھا کہ مسلمان ایک نیا معاشرہ یعنی اسلامی معاشرہ تشکیل کریں جو زندگی کے تمام مرحلوں میں جاہلی معاشرے سے مختلف اور عالمِ انسانی کے اندرموجود کسی بھی دوسرے معاشرے سے ممتاز ہو اور اس دعوت اسلامی کا نمائندہ ہو جس کی راہ میں مسلمانوں نے تیرہ سال تک طرح طرح کی مصیبتیں اور مشقتیں برداشت کی تھیں۔

ظاہر ہے اس طرح کے کسی معاشرے کی تشکیل ایک دن، ایک مہینہ یا ایک سال میں نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کے لیے ایک طویل مدت درکار ہوتی ہے، تاکہ اس میں آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ احکام صادر کیے جائیں اور قانون سازی کا کام مشق وتربیت اور عملی نفاذ کے ساتھ ساتھ مکمل کیا جائے، لیکن اس کے علاوہ کچھ دوسرے مسائل بھی تھے جو فوری توجہ کے طالب تھے، جن کی مختصر کیفیت یہ ہے:

مسلمانوں کی جماعت میں دو طرح کے لوگ تھے، ایک وہ جو خود اپنی زمین، اپنے مکان اور اپنے اموال کے اندر رہ رہے تھے اور اس بارے میں ان کو اس سے زیادہ فکرنہ تھی جتنی کسی آدمی کو اپنے اہل وعیال میں امن وسکون کے ساتھ رہتے ہوئے کرنی پڑتی ہے، یہ انصار کا گروہ تھا اور ان میں پشت ہا پشت سے باہم بڑی مستحکم عداوتیں اور نفر تیں چلی آرہی تھیں۔

ان کے پہلو بہ پہلو دوسرا گروہ مہاجرین کا تھا جو ان ساری سہولتوں سے محروم تھا اور لٹ پٹ کر کسی نہ کسی طرح تن بہ تقدیر مدینہ پہنچ گیا تھا، ان کے پاس نہ تو رہنے کے لیے کوئی ٹھکانہ تھا، نہ پیٹ پالنے کے لیے کوئی کام اور نہ سرے سے کسی قسم کا کوئی مال جس پر ان کی معیشت کا ڈھانچہ کھڑا ہوسکے، پھر ان پناہ گیر مہاجرین کی تعداد کوئی معمولی بھی نہ تھی اور ان میں دن بہ دن اضافہ ہی ہورہا تھا، کیونکہ اعلان کردیا گیا تھا جو کوئی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھتا ہے وہ ہجرت کرکے مدینہ آجائے اور معلوم ہے کہ مدینے میں نہ کوئی بڑی دولت تھی، نہ آمدنی کے ذرائع و وسائل، چنانچہ مدینے کا اقتصادی توازن بگڑ گیا اور اسی تنگی ترشی میں اسلام دشمن طاقتوں نے بھی مدینے کا تقریباً اقتصادی بائیکاٹ کردیا، جس سے درآمدات بند ہوگئیں اور حالات انتہائی سنگین ہوگئے۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

الرحیق المختوم مولانا صفی الرحمن مبارکپوری۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں