سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 105


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 105

مسلمانوں میں بھائی چارہ:

جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر کا اہتمام فرما کر باہمی اجتماع اور میل ومحبت کے ایک مرکز کو وجود بخشا، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاریخِ انسانی کا ایک اور نہایت تابناک کارنامہ انجام دیا، جسے مہاجرین وانصار کے درمیان مواخات اور بھائی چارے کے عمل کا نام دیا جاتا ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

"پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے مکان میں مہاجرین وانصار کے درمیان بھائی چارہ کرایا، کل نوے آدمی تھے، آدھے مہاجرین اور آدھے انصار! بھائی چارے کی بنیاد یہ تھی کہ یہ ایک دوسرے کے غمخوار ہوں گے اور موت کے بعد نسبتی قرابت داروں کے بجائے یہی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے، وراثت کا یہ حکم جنگِ بدر تک قائم رہا، پھر یہ آیت نازل ہوئی کہ ''نسبتی قرابت دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں (یعنی وراثت میں)" تو انصار و مہاجرین میں باہمی توارُث کا حکم ختم کردیا گیا، لیکن بھائی چارے کا عہد باقی رہا، کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور بھائی چارہ کرایا تھا جو خود باہم مہاجرین کے درمیان تھا، لیکن پہلی بات ہی ثابت ہے۔ یوں بھی مہاجرین اپنی باہمی اسلامی اخوت، وطنی اخوت اور رشتہ وقرابتداری کی اخوت کی بنا پر آپس میں اب مزید کسی بھائی چارے کے محتاج نہ تھے، جبکہ مہاجرین اور انصار کا معاملہ اس سے مختلف تھا۔" (زاد المعاد , 2/56)

اس بھائی چارے کا مقصود یہ تھا کہ جاہلی عصبیتیں تحلیل ہوجائیں، نسل، رنگ اور وطن کے امتیازات مٹ جائیں، موالات اور براءت کی اساس اسلام کے علاوہ کچھ اور نہ ہو، اس بھائی چارے کے ساتھ ایثار وغم گساری اور موانست اور خیر وبھلائی کرنے کے جذبات مخلوط تھے، اسی لیے اس نے اس نئے معاشرے کو بڑے نادر اور تابناک کارناموں سے پُر کردیا تھا۔

چنانچہ صحیح بخاری میں مروی ہے کہ مہاجرین جب مدینہ تشریف لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کے درمیان بھائی چارہ کرادیا، اس کے بعد حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے کہا: ''انصار میں میں سب سے زیادہ مال دار ہوں، آپ میرا مال دوحصوں میں بانٹ کر (آدھا لے لیں) اور میری دو بیویاں ہیں، آپ دیکھ لیں جو زیادہ پسند ہو، مجھے بتادیں، میں اسے طلاق دے دوں اور عدت گزرنے کے بعد آپ اس سے شادی کرلیں۔"

حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا: "اللہ آپ کے اہل اور مال میں برکت دے، آپ لوگوں کا بازار کہاں ہے؟ لوگوں نے انہیں بنو قینقاع کا بازار بتلادیا، (جہاں تجارتی کاموں میں لگ کر کچھ ہی مدت میں وہ خود ہی دولت مند ہوگئے اور پھر گھر بھی بسا لیا) (صحیح بخاری , 1/553)

اسی طرح حضرتِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت آئی ہے کہ انصار نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: "آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان اور ہمارے بھائیوں کے درمیان ہمارے کھجور کے باغات تقسیم فرما دیں۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں" انصار نے کہا: "تب آپ لوگ یعنی مہاجرین ہمارا کام کردیا کریں اور ہم پھل میں آپ لوگوں کو شریک رکھیں گے۔" انہوں نے کہا: "ٹھیک ہے ہم نے بات سنی اور مانی۔" (صحیح بخاری, باب اذا قال اکفنی مؤنۃ النخل , 1/213)

اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انصار نے کس طرح بڑھ چڑھ کر اپنے مہاجر بھائیوں کا اعزاز واکرام کیا تھا اور کس قدر محبت، خلوص، ایثار اور قربانی سے کام لیا تھا اور مہاجرین ان کی اس کرم ونوازش کی کتنی قدر کرتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اس کا کوئی غلط فائد ہ نہیں اٹھایا، بلکہ ان سے صرف اتنا ہی حاصل کیا جس سے وہ اپنی ٹوٹی ہوئی معیشت کی کمرسیدھی کرسکتے تھے اور حق یہ ہے کہ بھائی چارہ ایک نادر حکمت، حکیمانہ سیاست اور مسلمانوں کو درپیش بہت سارے مسائل کا ایک بہترین حل تھا۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں