سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 115


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 115
سرایا اور غزوات:

اہل سیر کی اصطلاح میں "غزوہ" اس فوجی مہم کو کہتے ہیں جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنفس نفیس تشریف لے گئے ہوں، خواہ جنگ ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو اور "سریہ" وہ فوجی مہم جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود تشریف نہ لے گئے ہوں، سرایا اسی سریہ کی جمع ہے۔

جنگ کی اجازت نازل ہونے کے بعد مسلمانوں کی عسکری مہمات کا سلسلہ عملاً شروع ہوگیا، طلایہ گردی کی شکل میں فوجی دستے گشت کرنے لگے، اس کا مقصود وہی تھا جس کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے کہ مدینہ کے گرد وپیش کے راستوں پر عموماً اور مکے کے راستے پر خصوصاً نظر رکھی جائے اور اس کے احوال کا پتا لگایا جاتا رہے اور ساتھ ہی ان راستوں پر واقع قبائل سے معاہدے کیے جائیں اور یثرب کے مشرکین ویہود اور آس پاس کے بدؤوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ مسلمان طاقتور ہیں اور اب انہیں کمزور نہیں سمجھا جانا چاہیے، نیز قریش کو ان کے بے جا طیش اور تیور کے خطرناک نتیجے سے ڈرایا جائے، تاکہ جس حماقت کی دلدل میں وہ اب تک دھنستے چلے جارہے ہیں اس سے نکل کر ہوش کے ناخن لیں اور اپنے اقتصاد اور اسبابِ معیشت کو خطرے میں دیکھ کر صلح کی طرف مائل ہو جائیں اور مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر ان کے خاتمے کے جو عزائم رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں جو رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں اور مکے کے کمزور مسلمانوں پر جو ظلم وستم ڈھارہے ہیں، ان سب سے باز آجائیں اور مسلمان جزیرۃ العرب میں اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے آزاد ہو جائیں۔

ان سَرَایا اور غزوات کے مختصر احوال پیش کیا جارہا ہے :

1.. سریہ سیف البحر (ساحل سمندر) رمضان 1ھ بمطابق مارچ 623ء:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو اس سَریہ کا امیر بنایا اور تیس مہاجرین کو ان کے زیر کمان شام سے آنے والے ایک قریشی قافلے کا پتا لگانے کے لیے روانہ فرمایا، اس قافلے میں تین سو آدمی تھے جن میں ابوجہل بھی تھا، مسلمان عِیْص (بحر احمر کے اطراف میں ینبع اور مَرْوَہ کے درمیان ایک مقام) کے اطراف میں ساحل سمندر کے پاس پہنچے تو قافلے کا سامنا ہوگیا اور فریقین جنگ کے لیے صف آراء ہوگئے، لیکن قبیلہ جہینہ کے سردار مجدی بن عَمرو نے جو فریقین کا حلیف تھا، دوڑ دھوپ کرکے جنگ نہ ہونے دی۔

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا یہ جھنڈا پہلا جھنڈا تھا، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستِ مبارک سے باندھا تھا، اس کا رنگ سفید تھا اور اس کے علمبردار حضرت ابومرثد کناز بن حصین غنوی رضی اللہ عنہ تھے۔

2.. سریہ رابغ شوال 1ھ بمطابق اپریل 623ء:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو مہاجرین کے ساٹھ سواروں کا رسالہ دے کر روانہ فرمایا، رابغ کی وادی میں ابوسفیان (رضی اللہ عنہ) سے سامنا ہوا، اس کے ساتھ دو سو آدمی تھے، فریقین نے ایک دوسرے پر تیر چلائے، لیکن اس سے آگے کوئی جنگ نہ ہوئی۔

اس سریے میں مکی لشکر کے دو آدمی مسلمانوں سے آ ملے، ایک حضرت مقداد بن عمرو البہرانی اور دوسرے عتیبہ بن غزوان المازنی رضی اللہ عنہما، یہ دونوں مسلمان تھے اور کفار کے ساتھ نکلے ہی اس مقصد سے تھے کہ اس طرح مسلمانوں سے جا ملیں گے۔

حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کا عَلَم سفید تھا اور علمبردار حضرت مسطح بن اثاثہ بن مطلب بن عبدمناف رضی اللہ عنہ تھے۔

3.. سریہ خرار ذی قعدہ 1ھ بمطابق مئی 623ء:

خرار (خ پر زبر اور ر پر تشدید) جحفہ کے قریب ایک مقام کا نام ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سَرِیہ کا امیر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا اور انہیں بیس آدمیوں کی کمان دے کر قریش کے ایک قافلے کا پتا لگانے کے لیے روانہ فرمایا اور یہ تاکید فرمادی کہ خرار سے آگے نہ بڑھیں، یہ لوگ پیدل روانہ ہوئے، رات کو سفر کرتے اور دن میں چھپے رہتے تھے۔ پانچویں روز صبح خرار پہنچے تو معلوم ہوا کہ قافلہ ایک دن پہلے جا چکا ہے، اس سریے کا عَلَم سفید تھا اور علمبردار حضرت مقداد بن عمرو رضی اللہ عنہ تھے۔

4.. غزوہ ابواء یا ودان صفر 2ھ بمطابق اگست 623ء:

ودان (و پر زبر، د پر تشدید) مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام کا نام ہے، یہ رابغ سے مدینہ جاتے ہوئے 29 میل کے فاصلے پر پڑتا ہے، ابواء ودان کے قریب ہی ایک دوسرے مقام کا نام ہے، اس مہم میں 70 مہاجرین کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہ نفسِ نفیس تشریف لے گئے تھے اور مدینے میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو اپنا قائم مقام مقرر فرمایا تھا، مہم کا مقصد قریش کے ایک قافلے کی راہ روکنا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَدَّان تک پہنچے، لیکن کوئی معاملہ پیش نہ آیا۔

اسی غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنوضمرہ کے سردار عمرو بن مخشی الضمری سے حلیفانہ معاہدہ کیا، معاہدے کی عبارت یہ تھی :

''یہ بنو ضمرہ کے لیے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تحریر ہے، یہ لوگ اپنے جان اور مال کے بارے میں مامون رہیں گے اور جو ان پر یورش کرے گا، اس کے خلاف ان کی مدد کی جائے گی، اِلاّ کہ یہ خود اللہ کے دین کے خلاف جنگ کریں، (یہ معاہدہ اس وقت تک کے لیے ہے ) جب تک سمندر سِوار ( پانی کی تہہ میں اگنے والی ایک گھاس) کو تر کرے (یعنی ہمیشہ کے لیے ہے ) اور جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی مدد کے لیے انہیں آواز دیں گے تو انہیں آنا ہو گا۔'' (المواہب اللدنیہ ۱/۷۵ شرح زرقانی)

یہ پہلی فوجی مہم تھی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بذاتِ خود تشریف لے گئے تھے اور پندرہ دن مدینے سے باہر گزار کر واپس آئے، اس مہم کے پرچم کا رنگ سفید تھا اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ علمبردار تھے۔

5.. غزوہ ٔبواط ربیع الاول 2ھ ستمبر 623ء:

بواط (ب پر پیش) اور رضویٰ کوہستان جہینہ کے سلسلے کے دو پہاڑ ہیں جو درحقیقت ایک ہی پہاڑ کی دو شاخیں ہیں، یہ مکہ سے شام جانے والی شاہراہ کے متصل ہے اور مدینہ سے 48 میل کے فاصلے پر ہے، اس مہم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 200 صحابہ کو ہمراہ لے کر روانہ ہوئے، مقصود قریش کا ایک قافلہ تھا جس میں امیہ بن خلف سمیت قریش کے ایک سو آدمی اور ڈھائی ہزار اونٹ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رضویٰ کے اطراف میں مقام بُواط تک تشریف لے گئے، لیکن کوئی معاملہ پیش نہ آیا۔

اس غزوہ کے دوران حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو مدینے کا امیر بنایا گیا تھا، پرچم سفید تھا، علمبردار حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے۔


==================>> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں