سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 102


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 102

یثرب میں یہود کے تین مشہور قبیلے:

یثرب میں ان یہود کے تین مشہور قبیلے تھے:

بنو قینقاع : یہ خزرج کے حلیف تھے اور ان کی آبادی مدینے کے اندر ہی تھی۔

بنو نضیر اور بنو قریظہ : یہ دونوں قبیلے اوس کے حلیف تھے اور ان دونوں کی آبادی مدینے کے اطراف میں تھی۔

ایک مدت سے یہی قبائل اوس وخزرج کے درمیان جنگ کے شعلے بھڑکا رہے تھے اور جنگ بعاث میں اپنے اپنے حلیفوں کے ساتھ خود بھی شریک ہوئے تھے۔

فطری بات ہے کہ ان یہود سے اس کے سوا کوئی اور توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ یہ اسلام کو بغض وعداوت کی نظر سے دیکھیں، کیونکہ پیغمبر ان کی نسل سے نہ تھے کہ ان کی نسلی عصبیت کو جو اُن کی نفسیات اور ذہنیت کا جزولاینفک بنی ہوئی تھی، سکون ملتا، پھر اسلام کی دعوت ایک صالح دعوت تھی جو ٹوٹے دلوں کو جوڑتی تھی، بغض وعداوت کی آگ بجھاتی تھی، تمام معاملات میں امانت داری برتنے اور پاکیزہ اور حلال مال کھانے کی پابند بناتی تھی، اِس کا مطلب یہ تھا کہ اب یثرب کے قبائل آپس میں جُڑ جائیں گے اور ایسی صورت میں لازماً وہ یہود کے پنجوں سے آزاد ہوجائیں گے، لہٰذا ان کی تاجرانہ سرگرمی ماند پڑجائے گی اور وہ اس سودی دولت سے محروم ہو جائیں گے، جس پر ان کی مالداری کی چکی گردش کررہی تھی، بلکہ یہ بھی اندیشہ تھا کہ کہیں یہ قبائل بیدار ہو کر اپنے حساب میں وہ سودی اموال بھی داخل نہ کرلیں جنہیں یہود نے ان سے بلاعوض حاصل کیا تھا اور اس طرح وہ ان زمینوں اور باغات کو واپس نہ لے لیں جنہیں سود کے ضمن میں یہودیوں نے ہتھیا لیا تھا۔

جب سے یہود کو معلوم ہوا تھا کہ اسلامی دعوت یثرب میں اپنی جگہ بنانا چاہتی ہے، تب ہی سے انہوں نے ان ساری باتوں کو اپنے حساب میں داخل کر رکھا تھا، اسی لیے یثرب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے وقت ہی سے یہود کو اسلام اور مسلمانوں سے سخت عداوت ہوگئی تھی، اگرچہ وہ اس کے مظاہرے کی جسارت خاصی مدت بعد کرسکے۔

اس کیفیت کا بہت صاف صاف پتا ابنِ اسحاق کے بیان کیے ہوئے ایک واقعے سے لگتا ہے۔ ان کا ارشاد ہے کہ مجھے اُمّ المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بنت حیی بن اخطب سے یہ روایت ملی ہے کہ انہوں نے فرمایا :

"میں اپنے والد اور چچا ابو یاسر کی نگاہ میں اپنے والد کی سب سے چہیتی اولاد تھی، میں چچا اور والد سے جب کبھی ان کی کسی بھی اولاد کے ساتھ ملتی تو وہ اس کے بجائے مجھے ہی اُٹھاتے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور قباء میں بنو عمرو بن عوف کے یہاں نزول فرما ہوئے تو میرے والد حیی بن اخطب اور میرے چچا ابو یاسر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں صبح تڑکے حاضر ہوئے اور غروبِ آفتاب کے وقت واپس آئے، بالکل تھکے ماندے، گرتے پڑتے، لڑکھڑاتی چال چلتے ہوئے، میں نے حسبِ معمول چہک کر ان کی طرف دوڑ لگائی، لیکن انہیں اس قدر غم تھا کہ واللہ! دونوں میں سے کسی نے بھی میری طرف التفات نہ کیا اور میں نے اپنے چچا کو سنا وہ میرے والد حیی بن اخطب سے کہہ رہے تھے :

کیا یہ وہی ہے؟
انہوں نے کہا: ہاں! اللہ کی قسم۔
چچا نے کہا: آپ انہیں ٹھیک ٹھیک پہچان رہے ہیں؟
والد نے کہا: ہاں!
چچانے کہا: تو اب آپ کے دل میں ان کے متعلق کیا ارادے ہیں؟
والد نے کہا: عداوت، اللہ کی قسم! جب تک زندہ رہوں گا۔" ( ابن ہشام ۱/۵۱۸ ، ۵۱۹)

اسی کی شہادت صحیح بخاری کی اس روایت سے بھی ملتی ہے، جس میں حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ موصوف ایک نہایت بلند پایہ یہودی عالم تھے، آپ کو جب بنو النجار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی خبر ملی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بہ عجلت تمام حاضر ہوئے اور چند سوالات پیش کیے، جنہیں صرف نبی ہی جانتا ہے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان کے جوابات سنے تو وہیں اسی وقت مسلمان ہوگئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یہود ایک بہتان باز قوم ہے، اگر انہیں اس سے قبل کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دریافت فرمائیں، میرے اسلام لانے کا پتا لگ گیا تو وہ آپ کے پاس مجھ پر بہتان تراشیں گے، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو بلا بھیجا۔

وہ آئے اور ادھر عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ گھر کے اندر چھپ گئے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ: "عبداللہ بن سلام تمہارے اندر کیسے آدمی ہیں؟"

انہوں نے کہا: ''ہمارے سب سے بڑے عالم ہیں اور سب سے بڑے عالم کے بیٹے ہیں، ہمارے سب سے اچھے آدمی ہیں اور سب سے اچھے آدمی کے بیٹے ہیں-" ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ہمارے سردار ہیں اور ہمارے سردار کے بیٹے ہیں اور ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ہمارے سب سے اچھے آدمی ہیں اور سب سے اچھے آدمی کے بیٹے ہیں اور ہم میں سب سے افضل ہیں اور سب سے افضل آدمی کے بیٹے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اچھا یہ بتاؤ اگر عبداللہ مسلمان ہوجائیں تو؟''
یہود نے دو تین بار کہا: "اللہ ان کو اس سے محفوظ رکھے۔"

اس کے بعد حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ برآمد ہوئے اور فرمایا: "أشہد أن لا إلٰہ إلا اللہ وأشہد أن محمداً رسول اللہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں)"

اتنا سننا تھا کہ یہود بول پڑے: ''یہ ہمارا سب سے بُرا آدمی ہے اور سب سے برے آدمی کا بیٹا ہے۔" اور (اسی وقت) ان کی برائیاں شروع کردیں۔

ایک روایت میں ہے کہ اس پر حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ''اے جماعتِ یہود! اللہ سے ڈرو، اس اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں، تم لوگ جانتے ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حق لے کر تشریف لائے ہیں۔"
لیکن یہودیوں نے کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو۔ ( صحیح بخاری ۱/۴۵۱ ، ۵۵۶ ، ۵۶۱)

==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں