سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 107


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 107

نبیﷺ کی تزکیۂ نفس اور مکارم اخلاق کی محنت:

اس حکمتِ بالغہ اور اس دُور اندیشی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نئے معاشرے کی بنیادیں اُستوار کیں، لیکن معاشرے کا ظاہری رُخ درحقیقت ان معنوی کمالات پر تھا جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت وہم نشینی کی بدولت یہ بزرگ ہستیاں بہرہ ور ہوچکی تھیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تعلیم وتربیت، تزکیۂ نفس اور مکارمِ اخلاق کی ترغیب میں مسلسل کوشاں رہتے تھے اور انہیں محبت وبھائی چارگی، مجد وشرف اور عبادت واطاعت کے آداب برابر سکھاتے اور بتاتے رہتے تھے۔

ایک صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ (یعنی اسلا م میں کون سا عمل بہتر ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''تم کھانا کھلاؤ اور شناسا اور غیر شناسا سبھی کو سلام کرو-'' (صحیح بخاری ۱/۶، ۹)*

''اے لوگو! سلام پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو اور رات میں جب لوگ سورہے ہوں، نماز پڑھو، جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے۔'' (ترمذی , ابن ماجہ ، دارمی ، مشکوٰۃ ۱/۱۶۸)

''مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔" (صحیح مسلم ، مشکوٰۃ ۲/۴۲۲)

''تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا, یہاں تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند کرے، جو خود اپنے لیے پسند کرتا ہے۔"

"سارے مومنین ایک آدمی کی طرح ہیں کہ اگر اس کی آنکھ میں تکلیف ہو تو سارے جسم کو تکلیف محسوس ہوتی ہے اور اگر سر میں تکلیف ہو تو سارے جسم کو تکلیف محسوس ہوتی ہے۔'' (صحیح بخاری ۱/۶)

''مومن مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے، جس کا بعض بعض کو قوت پہنچا تا ہے۔''' (مسلم ، مشکوٰۃ ۲/۴۲۲)

''آپس میں بغض نہ رکھو، باہم حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو اور اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو، کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ اپنے بھائی کو تین دن سے اوپر چھوڑے رہے۔" (متفق علیہ ، مشکوٰۃ ۲/۴۲۲ صحیح بخاری ۲/۸۹۰)

''مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے دشمن کے حوالے کرے اورجو شخص اپنے بھائی کی حاجت (برآری) میں کوشاں ہوگا، اللہ اس کی حاجت (برآری) میں ہوگا اور جو شخص کسی مسلمان سے کوئی غم اور دُکھ  دُور کرے گا، اللہ اس شخص سے روز قیامت کے دُکھوں میں سے کوئی دُکھ دُور کرے گا اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا، اللہ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔" (صحیح بخاری ۲/۸۹۶)

"تم لوگ زمین والوں پر مہربانی کرو، تم پر آسمان والا مہربانی کرے گا۔'' (متفق علیہ مشکوٰۃ ۲/۴۲۲)

''وہ شخص مومن نہیں جو خود پیٹ بھر کھالے اوراس کے بازو میں رہنے والا پڑوسی بھوکا رہے۔''
(سنن ابی داؤد ۲/ ۳۳۵۔ جامع ترمذی ۲/۱۴)

''مسلمان سے گالی گلوچ کرنا فسق ہے اور اس سے مار کاٹ کرنا کفر ہے۔'' (شعب الایمان للبیہقی ، مشکوٰۃ ۲/۴۲۴)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم صدقے اور خیرات کی ترغیب دیتے تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ صدقہ گناہوں کو ایسے ہی بجھا دیتا ہے، جیسے پانی آگ کو بجھاتا ہے۔ (احمد ، ترمذی ، ابن ماجہ۔ مشکوٰۃ ۱/۱۴)

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو مسلمان کسی ننگے مسلمان کو کپڑا پہنا دے، اللہ اسے جنت کا سبز لباس پہنائے گا اور جو مسلمان کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلا دے، اللہ اسے جنت کے پھَل کھلائے گا اور جو مسلمان کسی پیاسے مسلمان کو پانی پلادے، اللہ اسے جنت کی مُہر لگی ہوئی شراب طہور پلائے گا- (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، مشکوٰۃ ۱/۱۶۹)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ''آگ سے بچو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ کرکے اور اگر وہ بھی نہ پاؤ تو پاکیزہ بول ہی کے ذریعے۔'' (ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، دارمی ، مشکوٰۃ ۱/۱۶۳)

اور اسی کے پہلو بہ پہلو دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم مانگنے سے پرہیز کی بھی بہت زیادہ تاکید فرماتے، صبر وقناعت کی فضیلتیں سناتے اور سوال کرنے کو سائل کے چہرے کے لیے نوچ، خراش اور زخم قرار دیتے، البتہ اس سے اس شخص کو مُستثنیٰ قرار دیا جو حد درجہ مجبور ہو کر سوال کرے۔

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی بیان فرماتے کہ کن عبادات کے کیا فضائل ہیں؟ اور اللہ کے نزدیک ان کا کیا اجر وثواب ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آسمان سے جو وحی آتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مسلمانوں کو بڑی پختگی کے ساتھ مربوط رکھتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ وحی مسلمانوں کو پڑھ کرسناتے اور مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھ کر سناتے، تاکہ اس عمل سے ان کے اندر فہم و تدبر کے علاوہ دعوت کے حقوق اور پیغمبرانہ ذمّے داریوں کا شعور بیدار ہو۔

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی اخلاقیات بلند کیں، ان کی خداداد صلاحیتوں کو عروج بخشا اور انہیں بلند ترین اقدار و کردار کا مالک بنایا، یہاں تک کہ وہ انسانی تاریخ میں انبیاء کے بعد فضل وکمال کی سب سے بلند چوٹی کا نمونہ بن گئے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
"جس شخص کو طریقہ اختیار کرنا ہو وہ گزرے ہوئے لوگوں (یعنی صحابہ) کا طریقہ اختیار کرے، کیونکہ زندہ کے بارے میں فتنے کا اندیشہ ہے، وہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے، اس امت میں سب سے افضل، سب سے نیک دل، سب سے گہرے علم کے مالک اور سب سے زیادہ بے تکلف، اللہ نے انہیں اپنے نبی کی رفاقت اور اپنے دین کی اقامت کے لیے منتخب کیا، لہٰذا ان کا فضل پہچانو اور ان کے نقشِ قدم کی پیروی کرو اور جس قدر ممکن ہو ان کے اخلاق اور سیرت سے تمسک کرو، کیونکہ وہ لوگ ہدایت کے صراطِ مستقیم پر تھے۔" (رزین ، مشکوٰۃ ۱/۳۲)

پھر ہمارے پیغمبر رہبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ایسی معنوی اور ظاہری خوبیوں، کمالات، خداداد صلاحیتوں، مجد وفضائل مکارمِ اخلاق اور محاسنِ اعمال سے متصف تھے کہ دل خود بخود آپ کی جانب کھنچے جاتے تھے اور جانیں قربان ہوا چاہتی تھیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے جونہی کوئی کلمہ صادر ہوتا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کی بجا آوری کے لیے دوڑ پڑتے اور ہدایت ورہنمائی کی جو بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرما دیتے، اسے حرزِجان بنانے کے لیے گویا ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی بازی لگ جاتی۔

اس طرح کی کوشش کی بدولت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کے اندر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے، جو تاریخ کا سب سے زیادہ باکمال اور شرف سے بھرپور معاشرہ تھا اور اس معاشرے کے مسائل کا ایسا خوشگوار حل نکالا کہ انسانیت نے ایک طویل عرصے تک زمانے کی چکی میں پِس کر اور اتھاہ تاریکیوں میں ہاتھ پاؤں مار کر تھک جانے کے بعد پہلی بار چین کا سانس لیا، اس نئے معاشرے کے عناصر ایسی بلند وبالا تعلیمات کے ذریعے مکمل ہوئے جس نے پوری پامردی کے ساتھ زمانے کے ہر جھٹکے کا مقابلہ کرکے اس کا رُخ پھیر دیا اور تاریخ کا دھارا بدل دیا۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں