سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 112


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 112

یہودی عالم حضرت عبداللہ بن سلام کا قبول اسلام:

حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ پہلے یہودی ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا، حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کا نام اسلام قبول کرنے سے قبل "حصین بن سلام بن حارث" تھا اور ان کی کنیت ابو یوسف تھی، حصین بن سلام تورات کے عالم تھے، انہوں نے تورات میں یہ پڑھا تھا کہ مکہ میں ایک نبی کا ظہور ہونے والا ہے، دل میں ہر وقت یہی خیال رہتا تھا کہ نئے نبی کی زیارت کا کب شرف حاصل ہوگا۔

عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن مجھے پتہ چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لے آئے ہیں اور وادی قباء میں قیام پذیر ہیں۔ ”جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو لوگ بھاگ کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان بھاگ کر حاضر ہونے والوں میں مَیں بھی تھا، جب میں نے آپ کو دیکھا تو میں نے پہچان لیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا-"

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کی خبر ملی تو وہ آپ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ میں آپ سے تین چیزوں کے بارے میں پوچھوں گا، جنہیں نبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا :

1: قیامت کی سب سے پہلی علامت کیا ہے؟
2: وہ کون سا کھانا ہے جو سب سے پہلے جنتیوں کو کھانے کے لیے دیا جائے گا؟
3: کس چیز کی وجہ سے بچہ اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام نے ابھی ابھی مجھے آ کر اس کی خبر دی ہے۔

"قیامت کی سب سے پہلی علامت ایک آگ کی صورت میں ظاہر ہوگی، جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف ہانک لے جائے گی۔

سب سے پہلا کھانا جو اہل جنت کی دعوت کے لیے پیش کیا جائے گا، وہ مچھلی کی کلیجی پر جو ٹکڑا ٹکا رہتا ہے، وہ ہو گا۔

اور بچے کی مشابہت کا جہاں تک تعلق ہے تو جب مرد عورت کے قریب جاتا ہے، اس وقت اگر مرد کی منی پہل کر جاتی ہے تو بچہ اسی کی شکل و صورت پر ہوتا ہے، اگر عورت کی منی پہل کر جاتی ہے تو پھر بچہ عورت کی شکل و صورت پر ہوتا ہے۔"

(یہ سن کر) حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بول اٹھے: "میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔"

پھر عرض کیا: "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! یہود انتہا کی جھوٹی قوم ہے، یہود بخوبی جانتے ہیں کہ میں ان کا رئیس ہوں اور ان کے رئیس کا صاحب زادہ ہوں اور ان کا جیّد عالم ہوں اور ان کے جیّد عالم کا بیٹا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو بلا کر میرے بارے میں پوچھئے! بشرطیکہ ان کو میرے مسلمان ہوجانے کا علم نہ ہو، اگر ان کو میرے مسلمان ہونے کا علم ہوگیا تو وہ میرے خلاف بہتان تراشی کریں گے۔"

چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے پاس پیغام بھیجا، وہ آئے تو حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ گھر کے اندر چھپ کر بیٹھ گئے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو تلقین کی: "اے گروہ یہود! افسوس! ﷲ سے ڈرو، اس کی قسم جس کے بغیر کوئی معبود نہیں، تم جانتے ہو کہ میں برحق رسول ﷲ ہوں اور تمھارے پاس دین حق لایا ہوں۔"

انہوں نے کہا: "ہم نہیں جانتے۔" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات تین بار کہی، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا: "تم لوگوں میں عبداللہ بن سلام کون صاحب ہیں؟"

سارے یہودی کہنے لگے: "وہ ہم میں سب سے بڑے عالم اور سب سے بڑے عالم کے صاحب زادے ہیں، ہم میں سب سے زیادہ بہتر اور ہم میں سب سے بہتر کے صاحب زادے ہیں۔"

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا: "اگر عبداللہ مسلمان ہو جائیں تو پھر تمہارا کیا خیال ہو گا؟"

انہوں نے کہا: "اللہ تعالیٰ انہیں اس سے محفوظ رکھے، بخدا وہ مسلمان نہ ہوگا۔"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اے ابن سلام باہر آئیے!"

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے اور کہا: "میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے رسول ہیں، اے معتبر یہود! ﷲ سے ڈرو، وﷲ تم خوب جانتے ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﷲ کے رسول ہیں اور آپ دین حق لے کر آئے ہیں۔"

انہوں نے کہا: "تو جھوٹ بولتا ہے۔"

اب وہ سب ان کے متعلق کہنے لگے کہ ہم میں سب سے بدترین اور سب سے بدترین کا بیٹا ہے، وہیں وہ ان کی برائی کرنے لگے، چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو مجلس سے نکال دیا۔
(سیرت النبی , جلد اول , علامہ ابن کثیر)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں