سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 116


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 116

سرایا اور غزوات (حصہ: ۲)

6.. غزوہ سفوان ربیع الاول 2 ھ بمطابق ستمبر 623ء:

اس غزوہ کی وجہ یہ تھی کہ کرز بن جابر فہری نے مشرکین کی ایک مختصر سی فوج کے ساتھ مدینے کی چراگاہ پر چھاپہ مارا اور کچھ مویشی لوٹ لیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ستر صحابہ کے ہمراہ اس کا تعاقب کیا اور بدر کے اطراف میں واقع وادیٔ سفوان تک تشریف لے گئے اور کسی ٹکراؤ کے بغیر واپس آگئے، اس غزوہ کو بعض لوگ غزوہ ٔ بدر اولیٰ بھی کہتے ہیں۔

اِس غزوہ کے دوران مدینے کی امارت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو سونپی گئی تھی، عَلَم سفید تھا اور علمبردار حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔

7.. غزوہ ذی العشیرہ جمادی الاولی و جمادی الآخرہ 2 ھ بمطابق نومبر ، دسمبر 623ء:

اس مہم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ڈیڑھ یا دو سو مہاجرین تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کو روانگی پر مجبور نہیں کیا تھا، سواری کے لیے صرف تیس اونٹ تھے، اس لیے لوگ باری باری سوار ہوتے تھے، مقصود قریش کا ایک قافلہ تھا جو ملک شام جارہا تھا اور معلوم ہوا تھا کہ یہ مکے سے چل چکا ہے، اس قافلے میں خاصا مال تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذوالعُشَیْرہ (ینبوع کے اطراف میں ایک مقام کا نام) تک پہنچے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہنچنے سے کئی دن پہلے ہی قافلہ جاچکا تھا۔

یہ وہی قافلہ ہے جسے شام سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گرفتار کرنا چاہا تو یہ قافلہ تو بچ نکلا، لیکن جنگِ بدر پیش آگئی، اس غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنو مدلج اور ان کے حلیف بنو ضمرہ سے عدمِ جنگ کا معاہدہ کیا، ایام سفر میں مدینہ کی سربراہی کا کام حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسد مخزومی رضی اللہ عنہ نے انجام دیا، اس دفعہ بھی پرچم سفید تھا اور علمبردار حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ تھے۔

8.. سریۂ نخلہ رجب 2 ھ بمطابق جنوری 624ء:

اس مہم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں بارہ مہاجرین کا ایک دستہ روانہ فرمایا، ہر دو آدمیوں کے لیے ایک اونٹ تھا جس پر باری باری دونوں سوار ہوتے تھے، دستے کے امیر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک تحریر لکھ کر دی تھی اور ہدایت فرمائی تھی کہ دو دن سفر کر لینے کے بعد ہی اسے دیکھیں، چنانچہ دو دن کے بعد حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے تحریر دیکھی تو اس میں درج تھا:

"جب تم میری یہ تحریر دیکھو تو آگے بڑھتے جاؤ، یہاں تک کہ مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ میں اُترو اور وہاں قریش کے ایک قافلے کی گھات میں لگ جاؤ اور ہمارے لیے اس کی خبروں کا پتا لگاؤ۔''

انہوں نے سمع وطاعت کہا اور اپنے رفقاء کو اس کی اطلاع دیتے ہوئے فرمایا کہ میں کسی پر جبر نہیں کرتا، جسے شہادت محبوب ہو وہ اٹھ کھڑا ہو اور جسے موت ناگوار ہو وہ واپس چلا جائے، باقی رہا مَیں تو مَیں بہرحال آگے جاؤں گا، اس پر سارے ہی رُفقاء اٹھ کھڑے ہوئے اور منزل مقصود کے لیے چل پڑے، البتہ راستے میں سعد بن ابی وقاص اور عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہما کا اونٹ غائب ہوگیا، جس پر یہ دونوں بزرگ باری باری سفر کررہے تھے، اس لیے یہ دونوں پیچھے رہ گئے۔

حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے طویل مسافت طے کرکے نخلہ میں نزول فرمایا، وہاں سے قریش کا ایک قافلہ گزرا جو کشمش، چمڑے اور سامانِ تجارت لیے ہوئے تھا، قافلے میں عبداللہ بن مغیرہ کے دو بیٹے عثمان اور نوفل اور عمرو بن حضرمی اور حکیم بن کیسان مولیٰ مغیرہ تھے۔

مسلمانوں نے باہم مشورہ کیا کہ آخر کیا کریں، آج حرام مہینے رجب کا آخری دن ہے، اگر ہم لڑائی کرتے ہیں تو اس حرام مہینے کی بے حرمتی ہوتی ہے اور رات بھر رک جاتے ہیں تو یہ لوگ حدودِ حرم میں داخل ہو جائیں گے، اس کے بعد سب ہی کی یہی رائے ہوئی کہ حملہ کردینا چاہیے، چنانچہ ایک شخص نے عمرو بن حضرمی کو تیر مارا اور اس کا کام تمام کردیا، باقی لوگوں نے عثمان اور حکیم کو گرفتار کرلیا، البتہ نوفل بھاگ نکلا، اس کے بعد یہ لوگ دونوں قیدیوں اور سامانِ قافلہ کو لیے ہوئے مدینہ پہنچے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اس حرکت پر باز پرس کی اور فرمایا کہ میں نے تمہیں حرام مہینے میں جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا تھا اور سامان قافلہ اور قیدیوں کے سلسلے میں کسی بھی طرح کے تصرف سے ہاتھ روک لیا، ادھراس حادثے سے مشرکین کو اس پروپیگنڈے کا موقع مل گیا کہ مسلمانوں نے اللہ کے حرام کیے مہینے کو حلال کرلیا، چنانچہ بڑی چہ میگوئیاں ہوئیں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اس پروپیگنڈہ کی قلعی کھولی اور بتلایا کہ مشرکین جو کچھ کررہے ہیں وہ مسلمانوں کی حرکت سے بدرجہا زیادہ بڑا جرم ہے، ارشاد ہوا:

''لوگ تم سے حرام مہینے میں قتال کے متعلق دریافت کرتے ہیں، کہہ دو! اس میں جنگ کرنا بڑا گناہ ہے اور اللہ کی راہ سے روکنا اور اللہ کے ساتھ کفر کرنا، مسجد حرام سے روکنا اور اس کے باشندوں کو وہاں سے نکالنا، یہ سب اللہ کے نزدیک اور زیادہ بڑا جرم ہے اور فتنہ قتل سے بڑھ کر ہے۔" (۲: ۲۱۷ )

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں قیدیوں کو آزاد کردیا اور مقتول کے اولیاء کو اس کا خون بہا ادا کیا۔

یہ ہیں جنگِ بدر سے پہلے کے سریے اور غزوے، ان میں سے کسی میں بھی لوٹ مار اور قتل وغارت گری کی نوبت نہیں آئی، جب تک کہ مشرکین نے کرز بن جابر فہری کی قیادت میں ایسا نہیں کیا، اس لیے اس کی ابتدا بھی مشرکین ہی کی جانب سے ہوئی، جب کہ اس سے پہلے بھی وہ طرح طرح کی ستم رانیوں کا ارتکاب کرچکے تھے، ان سرایا اور غزوات کی تفصیل ذیل سے لی گئی ہے۔

( زاد المعاد ۲/۸۳-۸۵ ابن ہشام ۱/۵۹۱ - ۶۰۵ رحمۃ للعالمین ۱ / ۱۱۵، ۱۱۶، ۲/۲۱۵ ، ۲۱۶ ، ۴۶۸ - ۴۷۰)

ان مآخذ میں ان سرایا وغزوات کی ترتیب اور ان میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے، ہم نے علامہ ابن قیم اور علامہ منصور پوری کی تحقیق پر اعتماد کیا ہے۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں