سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 161


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 161

شہداء کی جمع وتدفین:

اس موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی شہداء کا معائنہ فرمایا اور فرمایا کہ ''میں ان لوگوں کے حق میں گواہ رہوں گا، حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں زخمی کیا جاتا ہے، اسے اللہ قیامت کے روز اس حالت میں اٹھائے گا کہ اس کے زخم سے خون بہہ رہا ہوگا، رنگ تو خون ہی کا ہوگا، لیکن خوشبو مشک کی خوشبو ہوگی۔ (ابن ہشام ۲/۹۸)

کچھ صحابہ نے اپنے شہداء کو مدینہ منتقل کرلیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ اپنے شہیدوں کو واپس لاکر ان کی شہادت گاہوں میں دفن کریں، نیز شہداء کے ہتھیار اور پوستین کے لباس اتار لیے جائیں، پھر انہیں غسل دیے بغیر جس حالت میں ہوں اسی حالت میں دفن کردیا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو دو تین تین شہیدوں کو ایک ہی قبر میں دفن فرمارہے تھے اور دو دو آدمیوں کو ایک ہی کپڑے میں اکٹھا لپیٹ دیتے تھے اور دریافت فرماتے تھے کہ ان میں سے کس کو قرآن زیادہ یاد ہے؟ لوگ جس کی طرف اشارہ کرتے، اسے لحد میں آگے کرتے اور فرماتے کہ میں قیامت کے روز ان لوگوں کے بارے میں گواہی دوں گا۔'' (صحیح بخاری مع فتح الباری ۳/۲۴۸ حدیث نمبر ۱۳۴۳، ۱۳۴۶، ۱۳۴۷، ۱۳۴۸، ۱۳۵۳، ۴۰۷۹)

عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ عنہ اور عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ ایک ہی قبر میں دفن کیے گئے، کیونکہ ان دونوں میں دوستی تھی۔ ( صحیح بخاری ۲/۵۸۴ زاد المعاد ۲/۹۸ 3 زاد المعاد ۲/۹۴)

حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کی لاش غائب تھی، تلاش کے بعد ایک جگہ اس حالت میں ملی کہ اس سے پانی ٹپک رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بتلایا کہ فرشتے انہیں غسل دے رہے ہیں، پھر فرمایا: "ان کی بیوی سے پوچھو کیا معاملہ ہے۔؟" ان کی بیوی سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے واقعہ بتلایا، یہیں سے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کا نام "غَسیل الملائکہ" (فرشتوں کے غسل دیے ہوئے) پڑگیا۔ ( یہ ابن شاذان کی روایت ہے، دیکھئے: مختصر السیرۃ للشیخ عبداللہ ص ۲۵۵)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا حال دیکھا تو سخت غمگین ہوئے، آپ کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا تشریف لائیں، وہ بھی اپنے بھائی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو دیکھنا چاہتی تھیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے صاحبزادے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ انہیں واپس لے جائیں، وہ اپنے بھائی کا حال دیکھ نہ لیں۔

مگر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا: "آخر ایسا کیوں؟ مجھے معلوم ہو چکا ہے کہ میرے بھائی کا مثلہ کیا گیا ہے، لیکن یہ اللہ کی راہ میں ہے، اس لیے جو کچھ ہوا ہم اس پر پوری طرح راضی ہیں، میں ثواب سمجھتے ہوئے ان شاء اللہ ضرور صبر کروں گی۔" اس کے بعد وہ حضرت حمزہ کے پاس آئیں، انہیں دیکھا، ان کے لیے دعا کی، إنا للہ پڑھی اور اللہ سے مغفرت مانگی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ انہیں حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کے ساتھ دفن کردیا جائے، وہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے بھانجے تھے۔

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ پر جس طرح روئے، اس سے بڑھ کر روتے ہوئے ہم نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں قبلے کی طرف رکھا، پھر ان کے جنازے پر کھڑے ہوئے اور اس طرح روئے کہ آواز بلند ہوگئی۔

درحقیقت شہداء کا منظر تھا ہی بڑا دلدوز اور زہرہ گزار، چنانچہ حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے لیے ایک سیاہ دھاریوں والی چادر کے سوا کوئی کفن نہ مل سکا، یہ چادر سر پر ڈالی جاتی تو پاؤں کھُل جاتے اور پاؤں پر ڈالی جاتی تو سر کھُل جاتا، بالآخر چادر سے سر ڈھک دیا گیا اور پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دی گئی، (یہ بالکل موج کے ہم شکل ایک خوشبودار گھاس ہوتی ہے، بہت سے مقامات پر چائے میں ڈال کر پکائی جاتی ہے، عرب میں اس کا پودا ہاتھ ڈیڑھ ہاتھ سے لمبا نہیں ہوتا، جبکہ ہندوستان میں ایک میٹر سے بھی لمبا ہوتا ہے۔) (مسند احمد ، مشکوٰۃ ۱/۱۴۰)

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مُصعب بن عُمیر رضی اللہ عنہ کی شہادت واقع ہوئی اور وہ مجھ سے بہتر تھے، انہیں ایک چادر کے اندر کفنایا گیا، حالت یہ تھی کہ اگر ان کا سر ڈھانکا جاتا تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں ڈھانکے جاتے تو سر کھل جاتا تھا، ان کی یہی کیفیت حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے بھی بیان کی ہے اور اتنا مزید اضافہ فرمایا ہے کہ (اس کیفیت کو دیکھ کر) نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ چادر سے ان کا سر ڈھانک دو اور پاؤں پر اِذخر ڈال دو۔ (صحیح بخاری ۲/۵۷۹،۵۸۴ مع فتح الباری ۳/۱۷۰ حدیث نمبر ۱۲۷۶ ، ۳۸۹۷ ، ۳۹۱۳، ۳۹۱۴ ، ۴۰۴۷ ، ۴۰۸۲ ، ۶۴۳۲، ۶۴۴۸)

امام احمد کی روایت ہے کہ احد کے روز جب مشرکین واپس چلے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: "برابر ہوجاؤ! ذرا میں اپنے رب عزوجل کی ثناء کروں۔" اس حکم پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے صفیں باندھ لیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں فرمایا:

''اے اللہ! تیرے ہی لیے ساری حمد ہے، اے اللہ! جس چیز کو تو کشادہ کردے، اسے کوئی تنگ نہیں کرسکتا اور جس چیز کو تو تنگ کردے، اسے کوئی کشادہ نہیں کرسکتا، جس شخص کو تو گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور جس شخص کو تو ہدایت دے دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا، جس چیز کو تو روک دے اسے کوئی دے نہیں سکتا اور جو چیز تو دے دے اسے کوئی روک نہیں سکتا، جس چیز کو تو دور کردے اسے کوئی قریب نہیں کرسکتا اورجس چیز کو تو قریب کردے اسے کوئی دور نہیں کرسکتا۔

اے اللہ! ہمارے اوپر اپنی برکتیں، رحمتیں اور فضل ورزق پھیلا دے۔
اے اللہ! میں تجھ سے برقرار رہنے والی نعمت کا سوال کرتا ہوں، جو نہ ٹلے اور نہ ختم ہو۔
اے اللہ! میں تجھ سے فقر کے دن مدد کا اور خوف کے دن امن کا سوال کرتا ہوں۔
اے اللہ! جو کچھ تونے ہمیں دیا ہے، اس کے شر سے اور جو کچھ نہیں دیا ہے، اس کے بھی شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
اے اللہ! ہمارے نزدیک ایمان کو محبوب کردے اور اسے ہمارے دلوں میں خوشنما بنا دے اور کفر، فسق اور نافرمانی کو ناگوار بنادے اور ہمیں ہدایت یافتہ لوگوں میں کردے۔
اے اللہ! ہمیں مسلمان رکھتے ہوئے وفات دے اور مسلمان ہی رکھتے ہوئے زندہ رکھ اور رسوائی اور فتنے سے دوچار کیے بغیر صالحین میں شامل فرما۔
اے اللہ! تو ان کا فروں کو مار اور ان پر سختی اور عذاب کر جو تیرے پیغمبروں کو جھٹلاتے اور تیری راہ سے روکتے ہیں۔
اے اللہ! ان کافروں کو بھی مار، جنہیں کتاب دی گئی۔ یا الٰہ الحق! ''

(بخاری ، الادب المفرد ، مسند احمد ۳/۳۲۴)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں