سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 155


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 155

رسول اللہ ﷺ کے گرد خوں ریز معرکہ:

عین اس وقت جبکہ اسلامی لشکر نرغے میں آ کر مشرکین کی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گردا گرد بھی خون ریز معرکہ آرائی جاری تھی، مشرکین نے گھیراؤ کی کارروائی شروع کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ محض نو آدمی تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو یہ کہہ کر پکارا کہ'' میری طرف آؤ! میں اللہ کا رسول ہوں'' تو آپ کی آواز مشرکین نے سن لی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچان لیا، (کیونکہ اس وقت وہ مسلمانوں سے بھی زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب تھے)، چنانچہ انہوں نے جھپٹ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کردیا اور کسی مسلمان کی آمد سے پہلے پہلے اپنا پورا بوجھ ڈال دیا، اس فوری حملے کے نتیجے میں ان مشرکین اور وہاں پر موجود نو صحابہ کے درمیان نہایت سخت معرکہ آرائی شروع ہوگئی، جس میں محبت وجان سپاری اور شجاعت وجانبازی کے بڑے بڑے نادر واقعات پیش آئے۔

صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اُحد کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سات انصار اور دو قریشی صحابہ کے ہمراہ الگ تھلگ رہ گئے تھے، جب حملہ آور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بالکل قریب پہنچ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "کون ہے جو انہیں ہم سے دفع کرے اور اس کے لیے جنت ہے؟ یا (یہ فرمایا کہ ) وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا۔" اس کے بعد ایک انصاری صحابی آگے بڑھے اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے، اس کے بعد پھر مشرکین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بالکل قریب آ گئے اور پھر یہی ہوا، اس طرح باری باری ساتوں انصاری صحابی شہید ہوگئے۔ (صحیح مسلم باب غزوۂ احد ۲/۱۰۷)

ان ساتوں میں سے آخری صحابی حضرت عمارہ بن یزید بن السکن رضی اللہ عنہ تھے، وہ لڑتے رہے، لڑتے رہے، یہاں تک کہ زخموں سے چور ہو کر گر پڑے، ایک لحظہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت آگئی، انہوں نے کفار کو حضرت عمارہ رضی اللہ عنہ سے پیچھے دھکیلا اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب لے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنے پاؤں پر ٹیک لیا اور انہوں نے اس حالت میں دم توڑ دیا کہ ان کے رخسار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں پر تھا۔ (ابن ہشام ۲/۸۱)

ابن السکن رضی اللہ عنہ کے گرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ صرف دونوں قریشی صحابی رہ گئے تھے، چنانچہ صحیحین میں ابوعثمان رضی اللہ عنہ کا بیان مروی ہے کہ جن ایام میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معرکہ آرائیاں کیں، ان میں سے ایک لڑائی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی نہ رہ گیا تھا اور یہ لمحہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے لیے نہایت ہی نازک ترین لمحہ تھا، جبکہ مشرکین کے لیے انتہائی سنہری موقع تھا۔

اور حقیقت یہ ہے کہ مشرکین نے اس موقعے سے فائدہ اٹھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی، انہوں نے اپنا تابڑ توڑ حملہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مرکوز رکھا اور چاہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہید کردیں، اسی حملے میں عُتبہ بن ابی وقاص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پتھر مارا، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلو کے بل گر گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا داہنا نچلا رباعی (منہ کے بالکل بیچوں بیچ نیچے اُوپر کے دو دو دانت ثنایا کہلاتے ہیں اور ان کے دائیں بائیں، نیچے اوپر کے ایک ایک دانت رباعی کہلاتے ہیں جو کچلی کے نو کیلے دانت سے پہلے ہوتے ہیں) دانت ٹوٹ گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نچلا ہونٹ زخمی ہوگیا، عبداللہ بن شہاب زہری نے آگے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشانی زخمی کردی۔

ایک اور اڑیل سوار عبداللہ بن قمئہ نے لپک کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھے پر ایسی سخت تلوار ماری کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مہینے سے زیادہ عرصے اس کی تکلیف محسوس کرتے رہے، البتہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوہری زِرہ نہ کٹ سکی، اس کے بعد اس نے پہلے ہی کی طرح پھر ایک زور دار تلوار ماری جو آنکھ سے نیچے کی اُبھری ہوئی ہڈی پر لگی اور اس کی وجہ سے خود (لوہے یا پتھر کی ٹوپی جسے جنگ میں سر اور چہرے کی حفاظت کے لیے اوڑھا جاتا ہے) کی دو کڑیاں چہرہ مبارک کے اندر دھنس گئیں، ساتھ ہی اس نے کہا: "اسی لئے میں قمئہ (توڑنے والے) کا بیٹا ہوں۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چہرے سے خون پونچھتے ہوئے فرمایا: "اللہ تجھے توڑ ڈالے۔"

اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ دعا سن لی، چنانچہ ابن عائذ سے روایت ہے کہ ابن قمئہ جنگ سے گھر واپس جانے کے بعد اپنی بکریاں دیکھنے کے لیے نکلا تو یہ بکریاں پہاڑ کی چوٹی پر ملیں، یہ شخص وہاں پہنچا تو ایک پہاڑی بکرے نے حملہ کر دیا اور سینگ مار مار کر پہاڑ کی بلندی سے نیچے لڑھکا دیا۔ (فتح الباری ۷/۳۷۳)

اور طبرانی کی روایت ہے کہ اللہ نے اس پر ایک پہاڑی بکرا مسلط کر دیا، جس نے سینگ مار مار کر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ (فتح الباری ۷/۳۶۶)

صحیح بخاری میں مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رباعی دانت توڑ دیا گیا اور سر زخمی کردیا گیا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چہرے سے خون پونچھتے جا رہے تھے اور کہتے جا رہے تھے: "وہ قوم کیسے کامیاب ہوسکتی ہے جس نے اپنے نبی کے چہرے کو زخمی کردیا اور اس کا دانت توڑ دیا، حالانکہ وہ انہیں اللہ کی طرف دعوت دے رہا تھا۔" اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی۔

"آپ کو کوئی اختیار نہیں، اللہ چاہے توان کی توبہ قبول کرے اور چاہے تو عذاب دے کہ وہ ظالم ہیں۔" (آل عمران :۱۲۸)

اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی: " اے اللہ! میری قوم کو معاف فرما دے، بے شک یہ مجھے جانتے نہیں۔" (فتح الباری ۷/۳۷۳)

دونوں قریشی صحابہ یعنی حضرت سعد بن ابی وقاص اور طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہما عرب کے ماہر ترین تیر انداز تھے، انہوں نے تیر مار مار کر مشرکین حملہ آوروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پرے رکھا۔

جہاں تک سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا تعلق ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ترکش کے سارے تیر ان کے لیے بکھیر دیئے اور فرمایا: "چلاؤ! تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔" ان کی صلاحیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سوا کسی اور کے لیے ماں باپ کے فدا ہونے کی بات نہیں کہی۔ (صحیح بخاری ۱/۴۰۷ ، ۲/۵۸۰ ، ۵۸۱)

اور جہاں تک حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا تعلق ہے تو ان کے کارنامے کا اندازہ نسائی کی ایک روایت سے لگایا جا سکتا ہے، جس میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مشرکین کے اس وقت کے حملے کا ذکر کیا ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انصار کی ذرا سی نفری کے ہمراہ تشریف فرما تھے، مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جالیا تو اس کے بعد حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے انصار کے آگے بڑھے اور ایک ایک کرکے شہید ہونے کی تفصیل ذکر کی ہے، جسے ہم صحیح مسلم کے حوالے سے بیان کر چکے ہیں، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ سب شہید ہوگئے تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور گیارہ آدمیوں کے برابر تنہا لڑائی کی، یہاں تک کہ ان کے ہاتھ پر تلوار کی ایک ایسی ضرب لگی جس سے ان کی انگلیاں کٹ گئیں۔ (فتح الباری ۷/۳۶۱سنن النسائی ۲/۵۲، ۵۳)

ترمذی کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں اس روز فرمایا: "جو شخص کسی شہید کو روئے زمین پر چلتا ہوا دیکھنا چاہے، وہ طلحہ بن عبیداللہ کو دیکھ لے۔''
(ترمذی : مناقب ، حدیث نمبر ۳۷۴۰، ابن ماجہ :مقدمہ حدیث نمبر ۱۲۵)

اور ابوداؤد طیالسی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جب جنگِ احد کا تذکرہ فرماتے تو کہتے کہ یہ جنگ کل کی کل طلحہ کے لیے تھی، (یعنی اس میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تحفظ کا اصل کارنامہ انہیں نے انجام دیا تھا) ( فتح الباری ۷/۳۶۱)

اسی نازک ترین لمحہ اور مشکل ترین وقت میں اللہ نے غیب سے اپنی مدد نازل فرمائی، چنانچہ صحیحین میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُحد کے روز دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دو آدمی تھے سفید کپڑے پہنے ہوئے، یہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے انتہائی زوردار لڑائی لڑ رہے تھے، میں نے اس پہلے اور اس کے بعد ان دونوں کو کبھی نہیں دیکھا، ایک اور روایت میں ہے کہ یہ دونوں حضرت جبریل و حضرت میکائیل تھے۔ (صحیح بخاری ۲/۵۸۰ ، مسلم : فضائل حدیث نمبر ۴۶ ، ۴۷ (۴/۱۸۰۲)

==================>>  جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں