سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 159


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 159

ابوسفیان کی شماتت اور حضرت عمرؓ کا جواب:

ابن اسحاق کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھاٹی میں تشریف لاچکے تو اُبی بن خلف یہ کہتا ہوا آیا کہ "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہاں ہے؟ یاتو میں رہوں گا یا وہ رہے گا۔"

صحابہ نے کہا: "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم میں سے کوئی اس پر حملہ کرے۔؟"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اسے آنے دو۔" جب قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حارث بن صمہ رضی اللہ عنہ سے ایک چھوٹا سا نیزہ لیا اور اس کے مدمقابل پہنچے، اس کی خود اور زِرہ کے درمیان حلق کے پاس تھوڑی سی جگہ کھُلی دکھائی پڑی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی پر ٹکا کر ایسا نیزہ مارا کہ وہ گھوڑے سے لڑھک گیا۔

جب قریش کے پاس گیا، درآں حالیکہ گردن میں کوئی بڑی خراش نہ تھی، البتہ خون بند تھا اور بہتا نہ تھا توکہنے لگا: "مجھے واللہ! محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قتل کردیا۔" لوگوں نے کہا: "اللہ کی قسم! تمہارا دل چلا گیا ہے، ورنہ تمہیں کوئی خاص چوٹ نہیں ہے۔" اس نے کہا: "وہ مکے میں مجھ سے کہہ چکا تھا کہ میں تمہیں قتل کروں گا۔"

(اس واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ ہے کہ جب مکے میں ابی بن خلف کی ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوتی تو وہ آپ سے کہتا: "اے محمد! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس عود نامی ایک گھوڑا ہے، میں اسے روزانہ تین صاع (ساڑھے سات کلو) دانہ کھلاتا ہوں، اسی پر بیٹھ کر تمہیں قتل کروں گا، جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے: "بلکہ ان شاء اللہ میں تمہیں قتل کروں گا۔) اس لیے اللہ کی قسم! اگر وہ مجھ پر تھوک دیتا تو بھی میری جان چلی جاتی، بالآخر اللہ کا یہ دشمن مکہ واپس ہوتے ہوئے مقام سرف پہنچ کر مر گیا۔ (ابن ہشام ۲/۸۴۔ زاد المعاد ۲/۹۷)

ابو الاسود نے حضرت عروہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ یہ بیل کی طرح آواز نکالتا تھا اور کہتا تھا: "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو تکلیف مجھے ہے اگر وہ ذی المجاز کے سارے باشندوں کو ہوتی تو وہ سب کے سب مرجاتے۔" (مستدرک حاکم ۲/۳۲۷)

پہاڑ کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واپسی کے دوران ایک چٹان پڑگئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر چڑھنے کی کوشش کی مگر چڑھ نہ سکے، کیونکہ ایک تو آپ کا بدن بھاری ہوچکا تھا، دوسرے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوہری زِرہ پہن رکھی تھی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سخت چوٹیں بھی آئی تھیں، لہٰذا حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نیچے بیٹھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سوار کرکے کھڑے ہوگئے، اس طرح آپ چٹان پر پہنچ گئے۔ (ابن ہشام ۲/۸۶، ترمذی حدیث نمبر ۱۶۹۲)

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھاٹی کے اندر اپنی قیادت گاہ میں پہنچ گئے تو مشرکین نے مسلمانوں کو زک پہنچانے کی آخری کوشش کی، ابن اسحاق کا بیان ہے کہ اس اثناء میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھاٹی کے اندر تشریف فرما تھے، ابو سفیان اور خالد بن ولید کی قیادت میں مشرکین کا ایک دستہ چڑھ آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دُعا فرمائی کہ اے اللہ! یہ ہم سے اوپر نہ جانے پائیں، پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور مہاجرین کی ایک جماعت نے لڑ کر انہیں پہاڑ سے نیچے اتار دیا۔ (ابن ہشام ۲/۸۶)

یہ آخری حملہ تھا جو مشرکین نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف کیا تھا، چونکہ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انجام کا صحیح علم نہ تھا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کا تقریباً یقین تھا، اس لیے انہوں نے اپنے کیمپ کی طرف پلٹ کر مکہ واپسی کی تیاری شروع کردی، کچھ مشرکین مرد اور عورتیں مسلمان شہداء کے مثلہ میں مشغول ہوگئے، یعنی شہیدوں کی شرمگاہیں اور کان، ناک وغیرہ کاٹ لیے، پیٹ چیر دیے۔ (ابن ہشام ۲/۹۰)

مشرکین نے واپسی کی تیاری مکمل کرلی تو ابو سفیان جبل اُحد پر نمودار ہوا اور بآواز بلند بولا: "کیا تم میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں؟" لوگوں نے کوئی جواب نہیں دیا، اس نے پھر کہا: "کیا تم میں ابو قحافہ کے بیٹے (ابوبکر رضی اللہ عنہ) ہیں؟" لوگوں نے کوئی جواب نہ دیا، اس نے پھر سوال کیا: "کیا تم میں عمر بن خطاب ہیں؟" لوگوں نے اب کی مرتبہ بھی جواب نہ دیا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کا جواب دینے سے منع فرما دیا تھا، ابو سفیان نے ان تین کے سوا کسی اور کے بارے میں نہ پوچھا، کیونکہ اسے اور اس کی قوم کو معلوم تھا کہ اسلام کا قیام ان ہی تینوں کے ذریعے ہے۔

بہرحال جب کوئی جواب نہ ملا تو اس نے کہا: "چلو ان تینوں سے فرصت ہوئی۔" یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بےقابو ہوگئے اور بولے: "او اللہ کے دشمن! جن کا تونے نام لیا ہے، وہ سب زندہ ہیں اور ابھی اللہ نے تیری رسوائی کا سامان باقی رکھا ہے۔"

اس کے بعد ابوسفیان نے کہا: "تمہارے مقتولین کا مُثلہ ہوا ہے، لیکن میں نے نہ اس کا حکم دیا تھا اور نہ اس کا برا ہی منایا ہے۔" پھر نعرہ لگایا: "اُعلُ ھُبَل۔ ھبل بلند ہو۔"

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو فرمایا کہ تم جواب دو! "اللہ أعلیٰ وأجل۔ اللہ اعلیٰ اور برتر ہے۔"

پھر ابو سفیان نے نعرہ لگایا: "لنا عُزیٰ ولا عٰزیٰ لکم __ ہمارے لیے عُزیٰ ہے اور تمہارے لیے عُزیٰ نہیں۔"
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر صحابہ کو فرمایا کہ تم جواب دو "اللہ مولانا ولا مولیٰ لکم _ اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور تمہارا کوئی مولیٰ نہیں۔"

اس کے بعد ابو سفیان نے کہا: "کتنا اچھا کارنامہ رہا، آج کا دن جنگ بدر کے دن کا بدلہ ہے اور لڑائی ڈول ہے (یعنی کبھی ایک فریق غالب آتا ہے اور کبھی دوسرا، جیسے ڈول کبھی کوئی کھینچتا ہے کبھی کوئی)"

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں کہا: "برابر نہیں، ہمارے مقتولین جنت میں ہیں اور تمہارے مقتولین جہنم میں۔"

اس کے بعد ابوسفیان نے کہا: "عمر! میرے قریب آؤ۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "جاؤ! دیکھو کیا کہتا ہے۔؟"
وہ قریب آئے تو ابوسفیان نے کہا: "عمر! میں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کردیا ہے۔؟"

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: "واللہ! نہیں، بلکہ اس وقت وہ تمہاری باتیں سن رہے ہیں۔"
ابوسفیان نے کہا: "تم میرے نزدیک ابن قمئہ (جس نے قتل کی ہوائی اڑائی تھی) سے زیادہ سچے اور راست باز ہو۔" (ابن ہشام ۲/۹۳، ۹۴ زاد المعاد ۲/۹۴ صحیح بخاری ۲/۵۷۹)

ابن اسحاق کا بیان ہے کہ ابوسفیان اور اس کے رُفقاء واپس ہونے لگے تو ابوسفیان نے کہا: "آئندہ سال بدر میں پھر لڑنے کا وعدہ ہے۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک صحابی سے فرمایا: "کہہ دو ٹھیک ہے، اب یہ بات ہمارے اور تمہارے درمیان طے رہی۔" ( ابن ہشام ۲/۹۴)

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا اور فرمایا: "قوم (مشرکین ) کے پیچھے پیچھے جاؤ اور دیکھو وہ کیا کررہے ہیں اور ان کا ارادہ کیا ہے۔؟ اگر انہوں نے گھوڑے پہلو میں رکھے ہوں اور اونٹوں پر سوارہوں تو ان کا ارادہ مکہ کا ہے اور اگر گھوڑوں پر سوار ہوں اور اونٹ ہانک کر لے جائیں تو مدینے کا ارادہ ہے۔" پھر فرمایا: "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر انہوں نے مدینے کا ارادہ کیا تو میں مدینے جا کر ان سے دو دو ہاتھ کروں گا۔"

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس کے بعد میں ان کے پیچھے نکلا تو دیکھا کہ انہوں نے گھوڑے پہلو میں کررکھے ہیں، اونٹوں پر سوار ہیں اور مکے کا رُخ ہے۔(ابن ہشام ۲/۹۴) حافظ ابن حجر نے فتح الباری (۷/۳۴۷) میں لکھا ہے کہ مشرکین کے عزائم کا پتہ لگانے کے لیے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے تھے۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری.۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں