سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 154


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 154

اسلامی لشکر مشرکین کے نرغے میں:

جب مسلمان نرغے میں آگئے تو ایک گروہ تو ہوش کھو بیٹھا، اسے صرف اپنی جان کی پڑی تھی، چنانچہ اس نے میدان جنگ چھوڑ کر فرار کی راہ اختیار کی، اسے کچھ خبر نہ تھی کہ پیچھے کیا ہو رہا ہے، ان میں سے کچھ تو بھاگ کر مدینے میں جا گھسے اور کچھ پہاڑ کے اُوپر چڑھ گئے۔

ایک اور گروہ پیچھے کی طرف پلٹا تو مشرکین کے ساتھ مخلوط ہوگیا، دونوں لشکر گڈ مڈ ہوگئے اور ایک دوسرے کا پتہ نہ چل سکا، اس کے نتیجے میں خود مسلمانوں کے ہاتھوں بعض مسلمان مار ڈالے گئے، چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ احد کے روز (پہلے) مشرکین کو شکست فاش ہوئی، اس کے بعد ابلیس نے آواز لگائی کہ اللہ کے بندو! پیچھے۔ اس پر اگلی صف پلٹی اور پچھلی صف سے گتھ گئی، حذیفہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ان کے والد یمان رضی اللہ عنہ پر حملہ ہو رہا ہے، وہ بولے: اللہ کے بندو! میرے والد ہیں، لیکن اللہ کی قسم! لوگوں نے ان سے ہاتھ نہ روکا، یہاں تک کہ انہیں مار ہی ڈالا، حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ آپ لوگوں کی مغفرت کرے، حضرت عروہ کا بیان ہے کہ واللہ! حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ میں ہمیشہ خیر کا بقیہ رہا، یہاں تک کہ وہ اللہ سے جاملے۔ (صحیح بخاری ۱/۵۳۹ ، ۲/۵۸۱ فتح الباری ۷/۳۵۱ ، ۳۶۲ ، ۳۶۳) بخاری کے علاوہ بعض روایات میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی دیت دینی چاہی، لیکن حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے ان کی دیت مسلمانوں پر صدقہ کردی۔

غرض اس گروہ کی صفوں میں سخت انتشار اور بدنظمی پیدا ہوگئی تھی، بہت سے لوگ حیران وسرگرداں تھے، ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کدھر جائیں، اسی دوران ایک پکار نے والے کی پکار سنائی پڑی کہ "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتل کر دیئے گئے ہیں۔" اس سے رہا سہا ہوش بھی جاتا رہا، اکثر لوگوں کے حوصلے ٹوٹ گئے، بعض نے لڑائی سے ہاتھ روک لیا اور درماندہ ہو کر ہتھیار پھینک دیے، کچھ اور لوگوں نے سوچا کہ رأس المنافقین عبداللہ بن اُبی سے مل کر کہا جائے کہ وہ ابو سفیان سے ان کے لیے امان طلب کردے۔

چند لمحے بعد ان لوگوں کے پاس حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا، دیکھا کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے پڑے ہیں، پوچھا: "کاہے کا انتظار ہے؟" جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قتل کر دیئے گئے، حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے کہا: "تو اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تم لوگ زندہ رہ کر کیا کرو گے؟ اُٹھو! اور جس چیز پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جان دی، اسی پر تم بھی جان دے دو" اس کے بعد کہا: "اے اللہ! ان لوگوں نے (یعنی مسلمانوں نے) جو کچھ کیا ہے، اس پر میں تیرے حضور معذرت کرتا ہوں اور ان لوگوں نے (یعنی مشرکین نے) جو کچھ کیا ہے، اس سے براءت اختیار کرتا ہوں۔" یہ کہہ کر آگے بڑھ گئے، آگے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے دریافت کیا: "ابوعمر! کہاں جارہے ہو؟" حضرت انس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: "آہا! جنت کی خوشبو کا کیا کہنا، اے سعد! میں اسے احد کے پرے محسوس کر رہا ہوں۔" اس کے بعد اور آگے بڑھے اور مشرکین سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ خاتمۂ جنگ کے بعد انہیں پہچانا نہ جا سکا، حتیٰ کہ ان کی بہن نے انہیں محض انگلیوں کے پور سے پہچانا، ان کو نیزے، تلوار اور تیر کے اسی ۸۰ سے زیا دہ زخم آئے تھے۔ (زاد المعاد ۲/۹۳، ۹۶۔ صحیح بخاری ۲/۵۷۹)

اسی طرح ثابت بن دَحداح رضی اللہ عنہ نے اپنی قوم کو پکارکر کہا: 'اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قتل کردیئے گئے ہیں تو اللہ تو زندہ ہے، وہ تو نہیں مر سکتا، تم اپنے دین کے لیے لڑو! اللہ تمہیں فتح و مدد دے گا۔" اس پر انصار کی ایک جماعت اٹھ پڑی اور حضرت ثابت رضی اللہ عنہ نے ان کی مدد سے خالد کے رسالے پر حملہ کردیا اور لڑتے لڑتے حضرت خالد کے ہاتھوں نیزے سے شہید ہوگئے، انہی کی طرح ان کے رفقاء نے بھی لڑتے لڑتے جامِ شہادت نوش کیا۔ (السیرۃ الحلبیہ ۲/۲۲)

ایک مہاجر صحابی ایک انصاری صحابی کے پاس سے گزرے جو خون میں لت پت تھے، مہاجر نے کہا: "بھئ فلاں! آپ کو معلوم ہوچکا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قتل کردیئے گئے۔" انصاری نے کہا: "اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قتل کردیئے گئے تو وہ اللہ کا دین پہنچا چکے ہیں، اب تمہارا کام ہے کہ اس دین کی حفاظت کے لیے لڑو۔" (زاد المعاد ۲/۹۶)

اس طرح کی حوصلہ افزا اور ولولہ انگیز باتوں سے اسلامی فوج کے حوصلے بحال ہوگئے اور ان کے ہوش وحواس اپنی جگہ آگئے، چنانچہ اب انہوں نے ہتھیار ڈالنے یا ابن اُبیّ سے مل کر طلب امان کی بات سوچنے کے بجائے ہتھیار اٹھالیے اور مشرکین کے تند سیلاب سے ٹکرا کر ان کا گھیرا توڑنے اور مرکز قیادت تک راستہ بنانے کی کوشش میں مصروف ہوگئے، اسی دوران یہ بھی معلوم ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کی خبر محض جھوٹ اور من گھڑت ہے، اس سے ان کی قوت اور بڑھ گئی اور ان کے حوصلوں اور ولولوں میں تازگی آگئی، چنانچہ وہ ایک سخت اور خون ریز جنگ کے بعد گھیرا توڑ کر نرغے سے نکلنے اور ایک مضبوط مرکز کے گرد جمع ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

اسلامی لشکر کا ایک تیسرا گروہ وہ تھا، جسے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فکر تھی، یہ گروہ گھیراؤ کی کارروائی کا علم ہوتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف پلٹا، ان میں سر فہرست حضرت ابوبکر صدیق، عمر بن الخطاب اور علی بن ابی طالب وغیرہم رضی اللہ عنہم تھے، یہ لوگ مقاتلین کی صفِ اول میں بھی سب سے آگے تھے، لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کے لیے خطرہ پیدا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت اور دفاع کرنے والوں میں بھی سب سے آگے آگے آگئے۔

==================>>  جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں