سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 156


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 156

رسول اللہﷺ کے گرد صحابہ کرامؓ کے اکھٹا ہونے کی ابتداء:

یہ سارا حادثہ چند لمحات کے اندر اندر بالکل اچانک اور نہایت تیز رفتاری سے پیش آگیا ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منتخب صحابہ کرام جو لڑائی کے دوران صفِ اوّل میں تھے، جنگ کی صورتِ حال بدلتے ہی یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سنتے ہی آپ کی طرف بے تحاشا دوڑ کر آئے کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی ناگوار حادثہ پیش نہ آجائے۔

مگر رکاوٹیں عبور کرتے کرتے جب یہ لوگ پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زخمی ہوچکے تھے، چھ انصاری شہید ہوچکے تھے، ساتویں زخمی ہوکر گر چکے تھے اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ جان توڑ مدافعت کر رہے تھے، ان لوگوں نے پہنچتے ہی اپنے جسموں اور ہتھیاروں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد ایک باڑھ تیار کردی اور دشمن کے تابڑ توڑ حملے روکنے میں انتہائی بہادری سے کام لیا، لڑائی کی صف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پلٹ کر آنے والے سب سے پہلے صحابی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یارِ غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔

ابن حبان نے اپنی صحیح میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "اُحد کے دن سارے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پلٹ گئے تھے، (یعنی محافظین کے سوا تمام صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کی قیام گاہ میں چھوڑ کر لڑائی کے لیے اگلی صفوں میں چلے گئے تھے، پھر گھیراؤ کے حادثے کے بعد ) میں پہلا شخص تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پلٹ کر آیا، دیکھا تو آپ کے سامنے ایک آدمی تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے لڑ رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بچا رہا تھا، میں نے (جی ہی جی میں ) کہا: "تم طلحہ ہو، تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں، تم طلحہ ہو، تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔" چونکہ مجھ سے یہ لمحہ فوت ہو گیا تھا اس لیے میں نے کہا کہ میری قوم ایک آدمی ہو تو یہ زیادہ پسندیدہ بات ہے۔ (تہذیب تاریخ دمشق ۷/۷۷ ) طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے قبیلہ بنو تیم سے تھے۔

اتنے میں ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ میرے پاس آگئے، وہ اس طرح دوڑ رہے تھے گویا چڑیا (اُڑ رہی ) ہے، یہاں تک کہ مجھ سے آ ملے، اب ہم دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دوڑے، دیکھا تو آپ کے آگے طلحہ رضی اللہ عنہ بچھے پڑے ہیں۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ (ہم پہنچے تو) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک زخمی ہوچکا تھا اور خُود کی دو کڑیاں آنکھ کے نیچے رخسار میں دھنس چکی تھیں، میں نے انہیں نکالنا چاہا تو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا: "اللہ کا واسطہ دیتا ہوں مجھے نکالنے دیجیے۔" اس کے بعد انہوں نے منہ سے ایک کڑی پکڑی اور آہستہ آہستہ نکالنی شروع کی، تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت نہ پہنچے اور بالآخر ایک کڑی اپنے منہ سے کھینچ کر نکال دی، لیکن (اس کوشش میں) ان کا ایک نچلا دانت گرگیا۔

اب دوسری میں نے کھینچنی چاہی تو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے پھر کہا: "ابوبکر! اللہ کا واسطہ دیتا ہوں مجھے کھینچنے دیجیے۔" اس کے بعد دوسری بھی آہستہ آہستہ کھینچی، لیکن ان کا دوسرا نچلا دانت بھی گرگیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اپنے بھائی طلحہ کو سنبھالو، (اس نے جنت) واجب کرلی۔" حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اب ہم طلحہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں سنبھالا، ان کو دس سے زیادہ زخم آچکے تھے۔ (زاد المعاد ۲/۹۵)

تہذیب تاریخ دمشق میں ہے کہ ہم ان کے پاس بعض گڑھوں میں آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ انہیں نیزے ، تیر اور تلوار کے کم وبیش ساٹھ زخم لگے ہوئے ہیں اور ان کی انگلی کٹ گئی ہے.. ہم نے کسی قدر ان کا حال درست کیا.. ( تہذیب تاریخ دمشق ۷/۷۸)

اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے اس دن دفاع وقتال میں کیسی جانبازی اور بے جگری سے کام لیا تھا۔

پھر ان ہی نازک ترین لمحات کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد جانباز صحابہ کی ایک جماعت بھی آن پہنچی جن کے نام یہ ہیں:

حضرت ابو دجانہ، 
مصعب بن عمیر،
 علی بن ابی طالب،
 سہل بن حُنیف،
 مالک بن سنان (ابو سعید خدری کے والد)،
 ام عمارہ نُسیبہ بنت کعب مازنیہ،
 قتادہ بن نعمان، 
عمر بن الخطاب،
 حاطب بن ابی بلتعہ
 اور ابو طلحہ رضی اللہ عنہم اجمعین۔

کچھ لوگ یہ جھوٹ بولتے اور بہتان لگاتے ہیں کہ احد کے دن سب صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ کر جنگ سے بھاگ گئے تھے، اس الزام کی وجہ یا تو ان لوگوں کا جنگ کی صورتحال کو سمجھ نا سکنا ہے یا اس کے پیچھے ان کا اصحاب رسول سے ذاتی تعصب ہے جو ان سے یہ کہلواتا ہے۔

کفار کے پشت سے یک دم حملے سے جو مسلمانوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، مسلمانوں کے لشکر نے منتشر ہونا تھا، حملہ اتنا اچانک اور زور دار تھا کہ سنبھلنا مشکل ہوگیا، صحابہ کو اپنی پوزیشن بھول گئی کہ وہ کہاں تھے؟ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب تھے انہوں نے جلدی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پالیا، جو ذرا فاصلے پر تھے، ان کے اور آپ کے درمیان کفار کا لشکر حائل ہوگیا، ان کفار سے لڑتے لڑتے انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچتے دیر لگ گئی۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھیں کیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچے؟ فرماتے ہیں: "احد کے دن جب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منہزم ہوگئے تو میں نے مقتولین میں دیکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نظر نہ آئے، میں نے جی میں کہا: "واللہ! آپ بھاگ نہیں سکتے اور مقتولین میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ نہیں رہا ہوں، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے جو کچھ کیا ہے، اس سے اللہ نے غضبناک ہو کر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اٹھا لیا ہے، لہٰذا میرے لیے اس سے بہتر کوئی صورت نہیں کہ لڑتے لڑتے شہید ہو جاؤں۔"

پھر کیا تھا، میں نے اپنی تلوار کی میان توڑ دی اور قریش پر اس زور کا حملہ کیا کہ انہوں نے جگہ خالی کردی، اب کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے درمیا ن (گھیرے میں) موجود ہیں۔ (مسند ابی یعلی ۱/۴۱۶ حدیث نمبر ۵۴۶)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں