سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 171


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 171

غزوہ بدر دوئم:

غزوۂ بنی نضیر میں کسی قربانی کے بغیر مسلمانوں کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی، اس سے مدینے میں قائم مسلمانوں کا اقتدار مضبوط ہوگیا اور منافقین پر بددلی چھا گئی، اب انہیں کھل کر کچھ کرنے کی جرأت نہیں ہو رہی تھی، اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان بدوؤں کی خبر لینے کے لیے یکسو ہوگئے جنہوں نے اُحد کے بعد ہی سے مسلمانوں کو سخت مشکلات میں الجھا رکھا تھا اور نہایت ظالمانہ طریقے سے داعیانِ اسلام پر حملے کر کرکے انہیں موت کے گھاٹ اتار چکے تھے اور اب ان کی جرأت اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ وہ مدینے پر چڑھائی کی سوچ رہے تھے۔

چنانچہ غزوۂ بنونضیر سے فارغ ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی ان بدعہدوں کی تادیب کے لیے اٹھے بھی نہ تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع ملی کہ بنی غَطْفَان کے دو قبیلے بنو محارب اور بنو ثعلبہ لڑائی کے لیے بدوؤں اور اعرابیوں کی نفری فراہم کر رہے ہیں، اس خبر کے ملتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجد پر یلغار کا فیصلہ کیا اور صحرائے نجد میں دور تک گھُستے چلے گئے، جس کا مقصد یہ تھا کہ ان سنگ دل بدوؤں پر خوف طاری ہوجائے اور وہ دوبارہ مسلمانوں کے خلاف پہلے جیسی سنگین کارروائیوں کے اعادے کی جرأت نہ کریں۔

ادھر سرکش بدو جو لوٹ مار کی تیاریاں کر رہے تھے، مسلمانوں کی اس اچانک یلغار کی خبر سنتے ہی خوف زدہ ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے اور پہاڑوں کی چوٹیوں میں جا دبکے، مسلمانوں نے لٹیرے قبائل پر اپنا رعب ودبدبہ قائم کرنے کے بعد امن وامان کے ساتھ واپس مدینے کی راہ لی۔

ابوسفیان نے غزوۂ احد سے واپسی کے وقت آئندہ سال میدان بدر میں جس غزوے کے لیے للکارا تھا اور جسے مسلمانوں نے منظور کر لیا تھا، اب اس کا وقت قریب آرہا تھا اور جنگی نقطۂ نظر سے یہ بات کسی طرح مناسب نہ تھی کہ بدوؤں اور اعراب کو ان کی سرکشی اور تمرد پر قائم چھوڑ کر بدر جیسی زور دار جنگ میں جانے کے لیے مدینہ خالی کردیا جائے، بلکہ ضروری تھا کہ میدانِ بدر میں جس ہولناک جنگ کی توقع تھی اس کے لیے نکلنے سے پہلے ان بدوؤں کی شوکت پر ایسی ضرب لگائی جائے کہ انہیں مدینے کا رُخ کرنے کی جرأت نہ ہو۔

اعراب کی شوکت توڑ دینے اور بدوؤں کے شر سے مطمئن ہو جانے کے بعد مسلمانوں نے اپنے بڑے دشمن قریش سے جنگ کی تیاری شروع کردی، کیونکہ سال تیزی سے ختم ہورہا تھا اور احد کے موقع پر طے کیا ہوا وقت قریب آتا جا رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فرض تھا کہ میدان کار زار میں ابوسفیان اور اس کی قوم سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے نکلیں اور جنگ کی چکی اس حکمت کے ساتھ چلائیں کہ جو فریق زیادہ ہدایت یافتہ اور پائیدار بقاء کا مستحق ہو، حالات کا رُخ پوری طرح اس کے حق میں ہوجائے۔

چنانچہ شعبان 4 ھ جنوری 626 ء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینے کا انتظام حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو سونپ کر اس طے شدہ جنگ کے لیے بدر کا رُخ فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ڈیڑھ ہزار کی جمعیت اور دس گھوڑے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوج کا عَلَم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیا اور بدر پہنچ کر مشرکین کے انتظار میں خیمہ زن ہوگئے۔

دوسری طرف ابوسفیان بھی پچاس سوار سمیت دو ہزارمشرکین کی جمعیت لے کر روانہ ہوا اور مکے سے ایک مرحلہ دور وادی مَرالظَّہران پہنچ کر مجنہ نام کے مشہور چشمے پر خیمہ زن ہوا، لیکن وہ مکہ ہی سے بوجھل اور بددل تھا، بار بار مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی جنگ کا انجام سوچتا تھا اور رعب وہیبت سے لرز اٹھتا تھا۔

مَرالظَّہران پہنچ کر اس کی ہمت جواب دے گئی اور بالآخر اپنے ساتھیوں سے کہا: "قریش کے لوگو! جنگ اس وقت موزوں ہوتی ہے جب شادابی اور ہریالی ہو کہ جانور بھی چر سکیں اور تم بھی دودھ پی سکو، اس وقت خشک سالی ہے لہٰذا میں واپس جارہا ہوں، تم بھی واپس چلے چلو۔"

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سارے ہی لشکر کے اعصاب پر خوف وہیبت سوار تھی، کیونکہ ابوسفیان کے اس مشورہ پر کسی قسم کی مخالفت کے بغیر سب نے واپسی کی راہ لی اور کسی نے بھی سفر جاری رکھنے اور مسلمانوں سے جنگ لڑنے کی رائے نہ دی۔

ادھر مسلمانوں نے بدر میں آٹھ روز تک ٹھہر کر دشمن کا انتظار کیا، اس کے بعد اس شان سے مدینہ واپس آئے کہ جنگ میں اقدام کی باگ ان کے ہاتھ آچکی تھی، دلوں پر ان کی دھاک بیٹھ چکی تھی اور ماحول پر ان کی گرفت مضبوط ہوچکی تھی، یہ غزوۂ بدر موعد، بدر ثانیہ، بدر آخرہ اور بدر صغریٰ کے ناموں سے معروف ہے۔ (ابن ہشام ۲/۲۰۹، ۲۱۰ ، زادا لمعاد۲/۱۱۲)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں