سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 147


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 147

مسلمانوں کی مجلس شوریٰ کا فیصلہ:

صبح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو جمع کر کے مشورہ کیا، خاص بات طے کرنے کی یہ تھی کہ دشمنوں کا مقابلہ مدینہ کے اندر رہ کر کیا جائے یا مدینہ سے باہر نکل کر، تجربہ کار لوگوں کی رائے یہ تھی کہ مدینہ کے اندررہ کرہی مقابلہ کیا جائے، ابن ہشام کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بزرگ صحابہ کے خیال سے متفق تھے، لیکن پرجوش اور شہادت پسند صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے جو بدر میں شرکت سے رہ گئی تھی، بڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مشورہ دیا کہ میدان میں تشریف لے چلیں اور انہوں نے اپنی اس رائے پر سخت اصرار کیا، حتیٰ کہ بعض صحابہ نے کہا: ''اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم تو اس دن کی تمنا کیا کرتے تھے اور اللہ سے اس کی دعائیں مانگا کرتے تھے، اب اللہ نے یہ موقع فراہم کردیا ہے اور میدان میں نکلنے کا وقت آگیا ہے تو پھرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دشمن کے مد مقابل ہی تشریف لے چلیں، وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم ڈر گئے ہیں۔"

ان گرم جوش حضرات میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سر فہرست تھے جو معرکہ بدر میں اپنی تلوار کا جوہر دکھلا چکے تھے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ پر کتاب نازل کی! میں کوئی غذا نہ چکھوں گا یہاں تک کہ مدینہ سے باہر اپنی تلوار کے ذریعے ان سے دو دو ہاتھ کر لوں۔ (سیرۃ حلبیہ ۲/۱۴)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کے اصرار کے سامنے اپنی رائے ترک کردی اور آخری فیصلہ یہی ہوا کہ مدینے سے باہر نکل کر کھلے میدان میں معرکہ آرائی کی جائے، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمعہ کی نماز پڑھائی تو وعظ ونصیحت کی، جد وجہد کی ترغیب دی اور حکم دیا کہ دشمن سے مقابلے کے لیے تیار ہو جائیں۔

اس کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی تو اس وقت تک لوگ جمع ہوچکے تھے، عَوَالی کے باشندے بھی آچکے تھے، نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اندر تشریف لے گئے، ساتھ میں ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما بھی تھے، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر پر عَمامَہ باندھا اور لباس پہنایا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نیچے اوپر دو زِرہیں پہنیں، تلوار حمائل کی اور ہتھیار سے آراستہ ہوکر لوگوں کے سامنے تشریف لائے۔

لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے منتظرتو تھے ہی، لیکن اس دوران حضرت سعد بن معاذ اور اُسَیْد بن حُضیر رضی اللہ عنہما نے لوگوں سے کہا کہ آپ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میدان میں نکلنے پر زبردستی آمادہ کیا ہے، لہٰذا معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے حوالے کر دیجیے۔

یہ سن کر سب لوگوں نے ندامت محسوس کی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہمیں آپ کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو پسند ہو وہی کیجیے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ پسند ہے کہ مدینے میں رہیں تو آپ ایسا ہی کیجیے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "کوئی نبی جب اپنا ہتھیار پہن لے تو مناسب نہیں کہ اسے اتارے تا آنکہ اللہ اس کے درمیان اور اس کے دشمن کے درمیان فیصلہ فرمادے۔" (مسند احمد ، نسائی ،حاکم۔ ابن اسحاق اور بخاری نے الاعتصام ، باب نمبر ۲۸ کے ترجمۃ الباب میں ذکر کیا ہے)

اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لشکر کو تین حصوں میں تقسیم فرمایا، مہاجرین کا دستہ: اس کا پرچم حضرت مُصْعب بن عُمیر عبدری رضی اللہ عنہ کو عطا کیا، قبیلہ اوس(انصار) کا دستہ: اس کا علم حضرت اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا، قبیلہ خزرج (انصار) کا دستہ: اس کا عَلَم حباب بن منذر رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا۔

پورا لشکر ایک ہزار مردانِ جنگی پر مشتمل تھا، جن میں ایک سو زِرہ پوش اور پچاس شہسوار تھے، یہ بات ابن قیم نے زاد المعاد ۲/۹۲ میں بیان کی ہے، حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ فاش غلطی ہے، موسیٰ بن عقبہ نے جزم کے ساتھ کہا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ اُحد میں سرے سے کوئی گھوڑا تھا ہی نہیں، واقدی کا بیان ہے کہ صرف دو گھوڑے تھے، ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اور ایک ابو بُردہ رضی اللہ عنہ کے پاس۔ (فتح الباری ۷/۳۵۰)

حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اس کام پر مقرر فرمایا کہ وہ مدینے کے اندر رہ جانے والے لوگوں کو نماز پڑھائیں گے، اس کے بعد کوچ کا اعلان فرمایا اور لشکر نے شمال کا رُخ کیا، حضرت سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما زرہ پہنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے چل رہے تھے۔

==================>>جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں