سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 153


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 153

مسلمان تیر اندازوں کی خوفناک غلطی:

کچھ دیر تک اسی طرح شدید جنگ ہوتی رہی اور چھوٹا سا اسلامی لشکر، رفتارِ جنگ پر پوری طرح مسلط رہا، بالآخر مشرکین کے حوصلے ٹوٹ گئے، ان کی صفیں دائیں بائیں، آگے پیچھے سے بکھرنے لگیں، گویا تین ہزار مشرکین کو سات سو نہیں بلکہ تیس ہزار مسلمانوں کا سامنا ہے، ادھر مسلمان تھے کہ ایمان ویقین اور جانبازی وشجاعت کی نہایت بلند پایہ تصویر بنے شمشیر وسنان کے جوہر دکھلا رہے تھے۔

جب قریش نے مسلمانوں کے تابڑ توڑ حملے روکنے کے لیے اپنی انتہائی طاقت صَرف کرنے کے باوجود مجبوری وبے بسی محسوس کی اور ان کے حوصلے اس حد تک ٹوٹ گئے کہ صواب کے قتل کے بعد کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ سلسلۂ جنگ جاری رکھنے کے لیے اپنے گرے ہوئے جھنڈے کے قریب جاکر اسے بلند کرے تو انہوں نے پسپا ہونا شروع کر دیا اور فرار کی راہ اختیار کی اور بدلہ وانتقام، بحالیٔ عزت ووقار اور واپسیٔ مجد وشرف کی جو باتیں انہوں نے سوچ رکھی تھیں، انہیں یکسر بھول گئے۔

ابن اسحاق کہتے ہیں کہ اللہ نے مسلمانوں پر اپنی مدد نازل کی اور ان سے اپنا وعدہ پورا کیا، چنانچہ مسلمانوں نے تلواروں سے مشرکین کی ایسی کٹائی کی کہ وہ کیمپ سے بھی پرے بھاگ گئے اور بلاشبہ ان کو شکست فاش ہوئی۔

صحیح بخاری میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جب مشرکین سے ہماری ٹکر ہوئی تو مشرکین میں بھگدڑ مچ گئی، یہاں تک کہ میں نے عورتوں کو دیکھا کہ پنڈلیوں سے کپڑے اٹھائے پہاڑ میں تیزی سے بھاگ رہی تھیں، ان کے پازیب دکھائی پڑ رہے تھے۔ (صحیح بخاری ۲/۵۷۹)

لیکن عین اس وقت جبکہ یہ مختصر سا اسلامی لشکر اہلِ مکہ کے خلاف تاریخ کے اوراق پر ایک اور شاندار فتح ثبت کر رہا تھا، جو اپنی تابناکی میں جنگِ بدر کی فتح سے کسی طرح کم نہ تھی، تیر اندازوں کی اکثریت نے ایک خوفناک غلطی کا ارتکاب کیا، جس کی وجہ سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا، مسلمانوں کو شدید نقصانات کا سامنا کر نا پڑا اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہادت سے بال بال بچے، اس کی وجہ سے مسلمانوں کی وہ ساکھ اور وہ ہیبت جاتی رہی جو جنگِ بدر کے نتیجے میں انہیں حاصل ہوئی تھی۔

پچھلے صفحات میں گزر چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیر اندازوں کو فتح وشکست ہر حال میں اپنے پہاڑی مورچے پر ڈٹے رہنے کی کتنی سخت تاکید فرمائی تھی، لیکن ان سارے تاکیدی احکامات کے باوجود جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان مالِ غنیمت جمع کر رہے ہیں تو ان پر حُبِّ دنیا کا کچھ اثر غالب آگیا، چنانچہ بعض نے بعض سے کہا: "غنیمت! غنیمت! تمہارے ساتھی جیت گئے، اب کاہے کا انتظار ہے؟"

اس آواز کے اٹھتے ہی ان کے کمانڈر حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات یاد دلائے اور فرمایا: "کیا تم لوگ بھول گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں کیا حکم دیا تھا؟"

لیکن ان کی غالب اکثریت نے اس یاد دہانی پر کان نہ دھرا اور اس کے بعد چالیس تیر اندازوں نے اپنے مورچے چھوڑ دیے اور مالِ غنیمت سمیٹنے کے لیے عام لشکر میں جا شامل ہوئے، اس طرح مسلمانوں کی پشت خالی ہوگئی اور وہاں صرف عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے نو ساتھی باقی رہ گئے جو اس عزم کے ساتھ اپنے مورچوں میں ڈٹے رہے کہ یا تو انہیں اجازت دی جائے گی یا وہ اپنی جان جان آفریں کے حوالے کردیں گے۔

خالد بن ولید، جو اس سے پہلے تین بار اس مورچے کو سر کرنے کی کوشش کر چکے تھے، اس زرّیں موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہایت تیزی سے چکر کاٹ کر اسلامی لشکر کی پشت پر جاپہنچے اور چند لمحوں میں عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو شہید کرکے مسلمانوں پر پیچھے سے ٹوٹ پڑے، ان کے شہسواروں نے ایک نعرہ بلند کیا، جس سے شکست خوردہ مشرکین کو اس نئی تبدیلی کا علم ہوگیا اور وہ بھی مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے، ادھر قبیلہ بنو حارث کی ایک عورت عمرہ بنت علقمہ نے لپک کر زمین پر پڑا ہوا مشرکین کا جھنڈا اٹھا لیا، پھر کیا تھا، بکھرے ہوئے مشرکین اس کے گرد سمٹنے لگے اور ایک نے دوسرے کو آواز دی، جس کے نتیجے میں وہ مسلمانوں کے خلاف اکٹھے ہوگئے اور جم کر لڑائی شروع کردی، اب مسلمان آگے اور پیچھے دونوں طرف سے گھیرے میں آچکے تھے، گویا چکی کے دو پاٹوں کے بیج میں پڑگئے تھے۔

اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف نو صحابہ کی ذرا سی نفری کے ہمراہ پیچھے تشریف فرما تھے اور مسلمانوں کی مار دھاڑ اور مشرکین کے کھدیڑے جانے کا منظر دیکھ رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک دم اچانک خالد بن ولید کے شہسوار دکھائی پڑے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے دو ہی راستے تھے، یا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے نو رفقاء سمیت بھاگ کر کسی محفوظ جگہ چلے جاتے اور اپنے لشکر کو جو اب نرغے میں آیا ہی چاہتا تھا، اس کی قسمت پر چھوڑ دیتے یا اپنی جان خطرے میں ڈال کر اپنے صحابہ کو بلاتے اور ان کی معتد بہ تعداد اپنے پاس جمع کرکے ایک مضبوط محاذ تشکیل دیتے اور اس کے ذریعے مشرکین کا گھیرا توڑ کر اپنے لشکر کے لیے احد کی بلندی کی طرف جانے کا راستہ بناتے۔

آزمائش کے اس نازک ترین موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبقریت اور بے نظیر شجاعت نمایاں ہوئی، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جان بچا کر بھاگنے کے بجائے اپنی جان خطرہ میں ڈال کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جان بچانے کا فیصلہ کیا۔

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خالد بن ولید کے شہسواروں کو دیکھتے ہی نہایت بلند آواز سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پکارا: "اللہ کے بندو! ادھر ۔۔۔!"

حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جانتے تھے کہ یہ آواز مسلمانوں سے پہلے مشرکین تک پہنچ جائے گی اور یہی ہوا بھی، چنانچہ یہ آواز سن کر مشرکین کو معلوم ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہیں موجود ہیں، لہٰذا ان کا ایک دستہ مسلمانوں سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ گیا اور باقی شہسواروں نے تیزی کے ساتھ مسلمانوں کو گھیرنا شروع کردیا۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں