سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 170


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 170

غزوہ بنو نضیر:

اس میں شبہ نہیں کہ مسلمانوں کے لحاظ سے یہ صورت حال نازک تھی، کیونکہ ان کے لیے اپنی تاریخ کے اس نازک اور پیچیدہ موڑ پر دشمنوں سے ٹکراؤ کچھ زیادہ قابل اطمینان نہ تھا، انجام خطرناک ہوسکتا تھا، سارا عرب مسلمانوں کے خلاف تھا اور مسلمانوں کے دو تبلیغی وفود نہایت بے دردی سے تہ تیغ کیے جا چکے تھے، پھر بنی نضیر کے یہود اتنے طاقتور تھے کہ ان کا ہتھیار ڈالنا آسان نہ تھا اور ان سے جنگ مول لینے میں طرح طرح کے خدشات تھے۔

مگر بئر معونہ کے المیے سے پہلے اور اس کے بعد حالات نے جو نئی کروٹ لی تھی اس کی وجہ سے مسلمان قتل اور بدعہدی جیسے جرائم کے سلسلے میں زیادہ حساس ہوگئے تھے اور ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف مسلمانوں کا جذبہ انتقام فزوں تر ہوگیا تھا، لہٰذا انہوں نے طے کرلیا کہ چونکہ بنو نضیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کا پروگرام بنایا تھا، اس لیے ان سے بہرحال لڑنا ہے، خواہ اس کے نتائج جو بھی ہوں۔

چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حیی بن اخطب کا جوابی پیغام ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لڑائی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور حضرت ابن اُمِ مکتوم کو مدینہ کا انتظام سونپ کر بنونضیرکے علاقے کی طرف روانہ ہوگئے، حضرت علی بن ابی طالب کے ہاتھ میں عَلَم تھا، بنو نضیرکے علاقے میں پہنچ کر ان کا محاصر ہ کرلیا گیا۔

ادھر بنونضیر نے اپنے قلعوں اور گڑھیوں میں پناہ لی اور قلعہ بند رہ کر فصیل سے تیر اور پتھر برساتے رہے، چونکہ کھجور کے باغات ان کے لیے سپر کا کام دے رہے تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ ان درختوں کو کاٹ کر جلا دیا جائے۔

بہرحال جب ان کا محاصرہ کیا گیا تو بنو قُریظہ ان سے الگ تھلگ رہے، عبداللہ بن اُبی نے بھی خیانت کی اور ان کے حلیف غَطفان بھی مدد کو نہ آئے، غرض کوئی بھی انہیں مدد دینے یا ان کی مصیبت ٹالنے پر آمادہ نہ ہوا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے واقعے کی مثال یوں بیان فرمائی:

''جیسے شیطان انسان سے کہتا ہے کفر کرو اورجب وہ کفر کر بیٹھتا ہے تو شیطان کہتا ہے میں تم سے بری ہوں۔" (۵۹:۱۶)

محاصرے نے کچھ زیادہ طول نہیں پکڑا، بلکہ صرف چھ رات یا بقول بعض پندرہ رات جاری رہا کہ اس دوران اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا، ان کے حوصلے ٹوٹ گئے، وہ ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہلوا بھیجا کہ ہم مدینے سے نکلنے کو تیار ہیں، آپ نے ان کی جلاوطنی کی پیش کش منظور فرمائی اور یہ بھی منظور فرما لیا کہ وہ ہتھیار کے علاوہ باقی جتنا سازوسامان اونٹوں پر لاد سکتے ہوں، سب لے کر بال بچوں سمیت چلے جائیں۔

بنو نضیر نے اس منظوری کے بعد ہتھیار ڈال دیے اور اپنے ہاتھوں اپنے مکانات اجاڑ ڈالے، تاکہ دروازے اور کھڑکیاں بھی لاد لے جائیں، بلکہ بعض بعض نے تو چھت کی کڑیاں اور دیواروں کی کھونٹیاں بھی لاد لیں، پھر عورتوں اور بچوں کو سوار کیا اور چھ سو اونٹوں پر لد لدا کر روانہ ہوگئے، بیشتر یہود اور ان کے اکابر مثلاً حُیی بن اخطب اور سلام بن ابی الحُقَیق نے خیبر کا رُخ کیا، ایک جماعت ملک شام روانہ ہوئی، صرف دو آدمیوں یعنی یامین بن عمرو اور ابو سعید بن وہب نے اسلام قبول کیا، لہٰذا ان کے مال کو ہاتھ نہیں لگایا گیا۔

غزوہ بنی نضیر ربیع الاول 4 ھ (اگست 625ء) میں پیش آیا اور اللہ تعالیٰ نے اس تعلق سے پوری سورۂ حشر نازل فرمائی، جس میں یہود کی جلاوطنی کا نقشہ کھینچتے ہوئے منافقین کے طرزِ عمل کا پردہ فاش کیا گیا ہے اور مالِ فَیْ کے احکام بیان فرماتے ہوئے مہاجرین وانصار کی مدح وستائش کی گئی ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جنگی مصالح کے پیش نظر دشمن کے درخت کاٹے جا سکتے ہیں اور ان میں آگ لگائی جاسکتی ہے، ایسا کرنا فساد فی الارض نہیں ہے، پھر اہلِ ایمان کو تقویٰ کے التزام اور آخرت کی تیاری کی تاکید کی گئی ہے، ان سب کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی حمد وثنا فرماتے ہوئے اور اپنے اسماء وصفات کوبیان کرتے ہوئے سورۃ ختم فرمادی ہے۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں