سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 169


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 169

یہودی قبیلہ بنو نضیر کی بدعہدی:

ہم بتا چکے ہیں کہ یہود اسلام اور مسلمانوں سے جلتے بھُنتے تھے، مگر چونکہ وہ مردِ میدان نہ تھے، سازشی اور دسیسہ کار تھے، اس لیے جنگ کے بجائے کینے اور عداوت کا مظاہرہ کرتے تھے اور مسلمانوں کو عہد وپیمان کے باوجود اذیت دینے کے لیے طرح طرح کے حیلے اور تدبیریں کرتے تھے۔

بنو قَینُقاع کی جلاوطنی اور کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ پیش آیا تو ان کے حوصلے ٹوٹ گئے اور انہوں نے خوفزدہ ہو کر خاموشی اور سکون اختیار کر لیا، لیکن غزوۂ احد کے بعد ان کی جرأت پھر پلٹ آئی، انہوں نے کھلم کھلا عداوت وبدعہدی کی، مدینہ کے منافقین اور مکے کے مشرکین سے پس پردہ ساٹ گانٹھ کی اور مسلمانوں کے خلاف مشرکین کی حمایت میں کام کیا۔ (سنن ابی داؤد مع شرح عون المعبود , ۳/۱۱۶،۱۱۷)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب کچھ جانتے ہوئے صبر سے کام لیا، لیکن رجیع اور معونہ کے حادثات کے بعد ان کی جرأت وجسارت حد سے بڑھ گئی اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی شہادت کا پروگرام بنالیا۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چند صحابہ کے ہمراہ یہود کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے بنو کلاب کے ان دونوں مقتولین کی دیت میں اعانت کے لیے بات چیت کی جنہیں حضرت عَمرو بن اُمیہ ضَمری رضی اللہ عنہ نے غلطی سے قتل کردیا تھا، ان پر معاہدہ کی رُو سے یہ اعانت واجب تھی، انہوں نے کہا: "ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! ہم ایسا ہی کریں گے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہاں تشریف رکھئے، ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ضرورت پوری کیے دیتے ہیں۔"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ایک گھر کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور ان کے وعدے کی تکمیل کا انتظار کرنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت علی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت بھی تشریف فرما تھی۔

ادھر یہود تنہائی میں جمع ہوئے تو ان پر شیطان سوار ہوگیا اور جو بدبختیاں ان کا نوشتہ تقدیر بن چکی تھی اسے شیطان نے خوشنما بنا کر پیش کیا، یعنی ان یہود نے باہم مشورہ کیا کہ کیوں نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو قتل کردیا جائے، چنانچہ انہوں نے کہا: "کون ہے جو اس چکی کو لے کر اوپر جائے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر پر گرا کر آپ کو کچل دے۔"

اس پر ایک بدبخت یہودی عَمرو بن جحاش نے کہا: "میں" ان لوگوں سے سلام بن مشکم نے کہا بھی کہ ایسا نہ کرو، کیونکہ اللہ کی قسم! انہیں تمہارے ارادوں کی خبر دے دی جائے گی اور پھر ہمارے اور ان کے درمیان جو عہد وپیمان ہے یہ اس کی خلاف ورزی بھی ہے، لیکن انہوں نے ایک نہ سنی اور اپنے منصوبے کو روبہ عمل لانے کے عزم پر برقرار رہے۔

ادھر رب العالمین کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہود کے ارادے سے باخبر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیزی سے اُٹھے اور مدینے کے لیے چل پڑے، بعد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آن ملے اور کہنے لگے: "آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُٹھ آئے اور ہم سمجھ نہ سکے۔"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتلایا کہ یہود کا ارادہ کیا تھا، مدینہ واپس آ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوراً ہی محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو بنی نضیر کے پاس روانہ فرمایا اور انہیں یہ نوٹس دیا کہ تم لوگ مدینے سے نکل جاؤ! اب یہاں میرے ساتھ نہیں رہ سکتے، تمہیں دس دن کی مہلت دی جاتی ہے، اس کے بعد جو شخص پایا جائے گا اس کی گردن مار دی جائے گی۔

اس نوٹس کے بعد یہود کو جلاوطنی کے سوا کوئی چارہ کار سمجھ میں نہیں آیا، چنانچہ وہ چند دن تک سفر کی تیاریاں کرتے رہے، لیکن اسی دوران عبداللہ بن اُبی رئیس المنافقین نے کہلا بھیجا کہ اپنی جگہ برقرار رہو، ڈٹ جاؤ اور گھر بار نہ چھوڑو، میرے پاس دو ہزار مردانِ جنگی ہیں جو تمہارے ساتھ تمہارے قلعے میں داخل ہو کر تمہاری حفاظت میں جان دے دیں گے اور اگر تمہیں نکالا ہی گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکل جائیں گے اور تمہارے بارے میں کسی سے ہرگز نہیں دبیں گے اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے اور بنو قریظہ اور غَظْفَان جو تمہارے حلیف ہیں، وہ بھی تمہاری مدد کریں گے۔

یہ پیغام سن کر یہود کی خود اعتمادی پلٹ آئی اور انہوں نے طے کرلیا کہ جلاوطن ہونے کے بجائے ٹکر لی جائے گی، ان کے سردار حُیی بن اخطب کو توقع تھی کہ رئیس المنافقین نے جو کچھ کہا ہے وہ پورا کرے گا، اس لیے اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جوابی پیغام بھیج دیا کہ "ہم اپنے دیار سے نہیں نکلتے، آپ کو جو کرنا ہو کرلیں۔"

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں