سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 173


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 173

غزوۂ احزاب (جنگ خندق):

اس غزوہ کو غزوہ ٔخندق اس لئے کہتے ہیں کہ اس موقع پر خندق کھود کر مدینہ کی حفاظت کی گئی تھی، غزوۂ احزاب اس لئے کہتے ہیں کہ کفار، یہودی اور ان کے حلیف کئی حزب (گروہ) مسلمانوں کے خلاف جتھا بنا کر ایک ہو گئے تھے، حزب کی جمع احزاب ہے۔

پس منظر:

ایک سال سے زیادہ عرصے کی پیہم فوجی مہمات اور کارروائیوں کے بعد جزیزۃ العرب پر سکون چھا گیا تھا اور ہر طرف امن وامان اور آشتی وسلامتی کا دور دورہ ہوگیا تھا، مگر یہود کو جو اپنی خباثتوں، سازشوں اور دسیسہ کاریوں کے نتیجے میں طرح طرح کی ذلت ورسوائی کا مزہ چکھ چکے تھے، اب بھی ہوش نہیں آیا تھا اور انہوں نے غَدْر وخیانت اور مکرو سازش کے مکروہ نتائج سے کوئی سبق نہیں سیکھا تھا۔

چنانچہ خیبر منتقل ہونے کے بعد پہلے تو انہوں نے یہ انتظار کیا کہ دیکھیں مسلمان اور بُت پرستوں کے درمیان جو فوجی کشاکش چل رہی ہے اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے، لیکن جب دیکھا کہ حالات مسلمانوں کے لیے سازگار ہوگئے ہیں، گردشِ لیل ونہار نے ان کے نفوذ کو مزید وسعت دے دی ہے اور دور دور تک ان کی حکمرانی کا سکہ بیٹھ گیا ہے تو انہیں سخت جلن ہوئی، انہوں نے نئے سرے سے سازش شروع کی اور مسلمانوں پر ایک ایسی آخری کاری ضرب لگانے کی تیاری میں مصروف ہوگئے جس کے نتیجے میں ان کا چراغِ حیات ہی گل ہوجائے، لیکن چونکہ انہیں براہ راست مسلمانوں سے ٹکر انے کی جرأت نہ تھی، اس لیے اس مقصد کی خاطر ایک نہایت خوفناک پلان تیار کیا۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ بنو نضیر کے بیس سردار اور رہنما مکے میں قریش کے پاس حاضر ہوئے اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف آمادۂ جنگ کرتے ہوئے اپنی مدد کا یقین دلایا، قریش نے ان کی بات مان لی، چونکہ وہ احد کے روز میدانِ بدر میں مسلمانوں سے صف آرائی کا عہد وپیمان کرکے اس کی خلاف ورزی کرچکے تھے، اس لیے ان کا خیال تھا کہ اب اس مجوزہ جنگی اقدام کے ذریعے وہ اپنی شہرت بھی بحال کرلیں گے اور اپنی کہی ہوئی بات بھی پوری کردیں گے۔

اس کے بعد یہود کا یہ وفد بنو غَطفان کے پاس گیا اور قریش ہی کی طرح انہیں بھی آمادۂ جنگ کیا، وہ بھی تیار ہوگئے، پھر اس وَفد نے بقیہ قبائل عرب میں گھوم گھوم کر لوگوں کو جنگ کی ترغیب دی اور ان قبائل کے بھی بہت سے افراد تیار ہوگئے، غرض اس طرح یہودی سیاست کاروں نے پوری کامیابی کے ساتھ کفر کے تمام بڑے بڑے گروہوں اور جتھوں کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی دعوت اور مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر جنگ کے لیے تیار کرلیا۔

اس کے بعد طے شدہ پروگرام کے مطابق جنوب سے قریش، کنانہ اور تہامہ میں آباد دوسرے حلیف قبائل نے مدینے کی جانب کوچ کیا، ان سب کا سپہ سالارِ اعلیٰ ابوسفیان تھا اور ان کی تعداد چار ہزار تھی، یہ لشکر مَرّالظہران پہنچا تو بنو سلیم بھی اس میں آ شامل ہوئے، ادھر اسی وقت مشرق کی طرف سے غطفانی قبائل فزارہ، مرہ اور اَشجع نے کوچ کیا، فزارہ کا سپہ سالار عُیینہ بن حصن تھا، بنو مرہ کا حارث بن عوف اور بنو اشجع کا مسعر بن رخیلہ، انہیں کے ضمن میں بنو اسد اور دیگر قبائل کے بہت سے افراد بھی آئے تھے۔

ان سارے قبائل نے ایک مقررہ وقت اور مقررہ پروگرام کے مطابق مدینے کا رخ کیا تھا، اس لیے چند دن کے اندر اندر مدینے کے پاس دس ہزار سپاہ کا ایک زبردست لشکر جمع ہوگیا، یہ اتنا بڑا لشکر تھا کہ غالباً مدینے کی پوری آبادی (عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کو ملا کر بھی) اس کے برابر نہ تھی، اس میں تین سو گھوڑے اور ایک ہزار پانچ سو اونٹ تھے، یہ لشکر تین مستقل فوجوں میں تقسیم تھا، غطفان کی فوجیں عینیہ بن حصن فزاری کی کمان میں تھیں جو عرب کا مشہور سردار تھا، بنو اسد طلیحہ کی افسری میں تھے اور ابوسفیان بن حرب سپہ سالار کل تھا۔

اگر حملہ آوروں کا یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر مدینے کی چہار دیواری تک اچانک پہنچ جاتا تو مسلمانوں کے لیے سخت خطرناک ثابت ہوتا، کچھ عجب نہیں کہ ان کی جڑ کٹ جاتی اور ان کا مکمل صفایا ہوجاتا، لیکن مدینے کی قیادت نہایت بیدار مغزاور چوکس قیادت تھی، اس کی انگلیاں ہمیشہ حالات کے نبض پر رہتی تھیں اور وہ حالات کا تجزیہ کرکے آنے والے واقعات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ بھی لگاتی تھی اور ان سے نمٹنے کے لیے مناسب ترین قدم بھی اٹھاتی تھی، چنانچہ کفار کا لشکر عظیم جوں ہی اپنی جگہ سے حرکت میں آیا، مدینے کے مخبرین نے اپنی قیادت کو اس کی اطلاع فراہم کردی۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں