سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 162


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 162

محبت وجانثاری کے نادر واقعات:

شہداء کی تدفین اور اللہ عزوجل کی ثناء و دعا سے فارغ ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینے کا رخ فرمایا، جس طرح دورانِ کارزار اہلِ ایمان صحابہ سے محبت وجاں سپاری کے نادر واقعات کا ظہور ہوا تھا، اسی طرح اثناء راہ میں اہلِ ایمان صحابیات سے صدق وجاں سپاری کے عجیب عجیب واقعات ظہور میں آئے۔

چنانچہ راستے میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات حضرت حَمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا سے ہوئی، انہیں ان کے بھائی عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر دی گئی، انہوں نے انا للہ پڑھی اور دعائے مغفرت کی، پھر ان کے ماموں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر دی گئی، انہوں نے پھر انا للہ پڑھی اور دعائے مغفرت کی، اس کے بعد ان کے شوہر حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر دی گئی تو تڑپ کر چیخ اٹھیں اور دھاڑ مار کر رونے لگیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "عورت کا شوہر اس کے یہاں ایک خصوصی درجہ رکھتا ہے۔" (ابن ہشام ۲/۹۸)

اسی طرح آپ کا گزر بنو دینار کی ایک خاتون کے پاس سے ہوا جس کے شوہر، بھائی اور والد تینوں خلعتِ شہادت سے سرفراز ہوچکے تھے، جب انہیں ان لوگوں کی شہادت کی خبردی گئی تو کہنے لگیں کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا ہوا؟" لوگوں نے کہا: "ام فلاں! حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بخیر ہیں اور بحمد للہ جیسا تم چاہتی ویسے ہی ہیں۔" خاتون نے کہا: "ذرا مجھے دکھلادو! میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود مبارک دیکھ لوں۔" لوگوں نے انہیں اشارے سے بتلایا، جب ان کی نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پڑی تو بے ساختہ پکار اٹھیں: "کل مصیبۃ بعدک جلل۔ آپ کے بعد ہر مصیبت ہیچ ہے۔" (ایضا ۲/۹۹)

اثناء راہ ہی میں حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی والدہ آپ کے پاس دوڑتی ہوئی آئیں، اس وقت حضرت سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے تھے، کہنے لگے: "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میری والدہ ہیں۔" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے استقبال کے لیے رک گئے، جب وہ قریب آگئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے صاحبزادے عمرو بن معاذ رضی اللہ عنہ کی شہادت پر کلماتِ تعزیت کہتے ہوئے انہیں تسلی دی اور صبر کی تلقین فرمائی، کہنے لگیں: "جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہ سلامت دیکھ لیا تو میرے لیے ہر مصیبت ہیچ ہے۔"

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہداء اُحد کے لیے دعا فرمائی اور فرمایا: "اے اُمِ سعد! تم خوش ہوجاؤ اور شہداء کے گھروالوں کو خوش خبری سنادو کہ ان کے شہداء سب کے سب ایک ساتھ جنت میں ہیں اور اپنے گھروالوں کے بارے میں ان سب کی شفاعت قبول کرلی گئی ہے۔" کہنے لگیں: "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ان کے پسماندگان کے لیے بھی دعا فرما دیجیے:" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اے اللہ! ان کے دلوں کا غم دور کر، ان کی مصیبت کا بدل عطا فرما اور باقی ماندگان کی بہترین دیکھ بھال فرما۔" (السیرۃ الحلبیہ ۲/ ۴۷)

بیشتر روایتیں متفق ہیں کہ مسلمان شہداء کی تعداد ستر تھی، جن میں بھاری اکثریت انصار کی تھی، یعنی ان کے 65 آدمی شہید ہوئے تھے، 41 خزرج سے اور 24 اوس سے، ایک آدمی یہود سے قتل ہوا تھا اور مہاجرین شہداء کی تعداد 4 تھی۔

باقی رہے قریش کے مقتولین تو ابن اسحاق کے بیان کے مطابق ان کی تعداد 22 تھی، لیکن اصحاب مغازی اور اہلِ سِیَر نے اس معرکے کی جو تفصیلات ذکر کی ہیں اور جن میں ضمناً جنگ کے مختلف مرحلوں میں قتل ہونے والے مشرکین کا تذکرہ آیا ہے، ان پر گہری نظر رکھتے ہوئے دقت پسندی کے ساتھ حساب لگایا جائے تو یہ تعداد 22 نہیں، بلکہ 38 ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔ (ابن ہشام ۲/۱۲۲تا ۱۲۹ فتح الباری ۷/۳۵۱ اور غزوہ ٔ احد تصنیف محمد احمد باشمیل ص ۲۷۸، ۲۷۹،۲۸۰)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں