سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 164


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 164

کفار کے حوصلے پست:

ابھی پڑاؤ چھوڑ کر ابوسفیان اور اس کے فوجی ہلے بھی نہ تھے کہ معبد بن ابی معبد خزاعی رضی اللہ عنہ پہنچ گئے، ابوسفیان کو معلوم نہ تھا کہ یہ مسلمان ہوگئے ہیں، اس نے پوچھا: "معبد! پیچھے کی کیا خبر ہے۔؟"

معبد رضی اللہ عنہ نے کہا: "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں کو لے کر تمہارے تعاقب میں نکل چکے ہیں، ان کی جمعیت اتنی بڑی ہے کہ میں نے ویسی جمعیت کبھی دیکھی ہی نہیں، سارے لوگ تمہارے خلاف غصے سے کباب ہوئے جارہے ہیں، اُحد میں پیچھے رہ جانے والے بھی آگئے ہیں، وہ جو کچھ ضائع کر چکے ہیں اس پر سخت نادم ہیں اور تمہارے خلاف اس قدر بھڑکے ہوئے ہیں کہ میں نے اس کی مثال دیکھی ہی نہیں۔"

ابوسفیان نے کہا: "ارے بھائی یہ کیا کہہ رہے ہو۔؟"

معبد رضی اللہ عنہ نے کہا: "واللہ! میرا خیال ہے کہ تم کوچ کرنے سے پہلے پہلے گھوڑوں کی پیشانیاں دیکھ لو گے یا لشکر کا ہراول دستہ اس ٹیلے کے پیچھے نمودار ہوجائے گا۔"
ابوسفیان نے کہا: "واللہ! ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ان پر پلٹ کر پھر حملہ کریں اور ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دیں۔" معبد رضی اللہ عنہ نے کہا: "ایسا نہ کرنا، میں تمہاری خیر خواہی کی بات کر رہا ہوں۔"

یہ باتیں سن کر مکی لشکر کے حوصلے ٹوٹ گئے، ان پر گھبراہٹ اور رعب طاری ہوگیا اور انہیں اسی میں عافیت نظر آئی کہ مکے کی جانب اپنی واپسی جاری رکھیں، البتہ ابوسفیان نے اسلامی لشکر کو تعاقب سے باز رکھنے اور اس طرح دوبارہ مسلح ٹکراؤ سے بچنے کے لیے پروپیگنڈے کا ایک جوابی اعصابی حملہ کیا، جس کی صورت یہ ہوئی کہ ابوسفیان کے پاس سے قبیلہ عبدالقیس کا ایک قافلہ گزرا، ابوسفیان نے کہا: "کیا آپ لوگ میرا ایک پیغام محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچادیں گے؟" میرا وعدہ ہے کہ اس کے بدلے جب آپ لوگ مکہ آئیں گے تو عُکاظ کے بازار میں آپ لوگوں کو اتنی کشمش دوں گا جتنی آپ کی یہ اونٹنی اٹھا سکے گی۔"

ان لوگوں نے کہا: "جی ہاں! "
ابوسفیان نے کہا: "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر پہنچادیں کہ ہم نے ان کی اور ان کے رفقاء کی جڑ ختم کردینے کے لیے دوبارہ پلٹ کر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔"

اس کے بعد جب یہ قافلہ حَمراءالاسد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس سے گزرا تو ان سے ابوسفیان کا پیغام کہہ سنایا اور کہا کہ لوگ تمہارے خلاف جمع ہیں، ان سے ڈرو!

مگر ان کی باتیں سن کر مسلمانوں کے ایمان میں اور اضافہ ہوگیا اور انہوں نے کہا: "حسبنا اللہ ونعم الوکیل۔ اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ بہترین کار ساز ہے۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتوار کے دن حمراء الاسد تشریف لے گئے تھے، دوشنبہ، منگل اور بدھ یعنی ۹/۱۰/۱۱/شوال ۳ھ کو وہیں مقیم رہے، اس کے بعد مدینہ واپس آئے۔

مکے کا ایک جاسوس معاویہ بن مغیرہ بن ابی العاص تھا اور یہ پکڑا گیا، یہ شخص اس طرح زد میں آیا کہ جب احد کے روز مشرکین واپس چلے گئے تو یہ اپنے چچیرے بھائی عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ملنے آیا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے امان طلب کی، آپ نے اس شرط پر امان دے دی کہ اگر وہ تین روز کے بعد پایا گیا تو قتل کردیا جائے گا۔

لیکن جب مدینہ اسلامی لشکر سے خالی ہو گیا تو یہ شخص قریش کی جاسوسی کے لیے تین دن سے زیادہ ٹھہر گیا اور جب لشکر واپس آیا تو بھاگنے کی کوشش کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کوحکم دیا اور انہوں نے اس شخص کا تعاقب کرکے اسے تہ تیغ کردیا۔

غزوہ احد اور غزوہ حمراء الاسد کی تفصیلات ابن ہشام ۲/۶۰ تا ۱۲۹ ، زاد المعاد ۲/۹۱ تا ۱۰۸ فتح الباری مع صحیح البخاری ۷/۳۴۵ تا ۳۷۷ مختصر السیرۃ للشیخ عبداللہ ص ۲۴۲ تا ۲۵۷ سے جمع کی گئی ہیں اور دوسرے مصادر کے حوالے متعلقہ مقامات ہی پر دے دیے گئے ہیں۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں