سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 163


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 163

غزوہ حمراءُ الاسد:

شنبہ 7/شوال 3 ھ کو سرِ شام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ پہنچے، مسلمانوں نے معرکۂ اُحد سے واپس آکر (8 /شوال 3 ھ شنبہ ویک شنبہ کی درمیانی) رات ہنگامی حالت میں گزاری، جنگ نے انہیں چُور چُور کر رکھا تھا، اس کے باوجود وہ رات بھر مدینے کے راستوں اور گزرگاہوں پر پہرہ دیتے رہے اور اپنے سپہ سالارِ اعظم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصی حفاظت پر تعینات رہے، کیونکہ انہیں ہر طرف سے خدشات لاحق تھے۔

ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوری رات جنگ سے پیدا شدہ صورت حال پر غور کرتے ہوئے گزاری، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اندیشہ تھا کہ اگر مشرکین نے سوچا کہ میدانِ جنگ میں اپنا پلہ بھاری رہتے ہوئے بھی ہم نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تو انہیں یقینا ندامت ہوگی اور وہ راستے سے پلٹ کر مدینے پر دوبارہ حملہ کریں گے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ بہرحال مکی لشکر کا تعاقب کیا جانا چاہیے۔

چنانچہ اہلِ سیر کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معرکہ احد کے دوسرے دن یعنی یک شنبہ 8 /شوال 3 ھ کو علی الصباح اعلان فرمایا کہ دشمن کے مقابلے کے لیے چلنا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان فرمایا کہ ہمارے ساتھ صرف وہی آدمی چل سکتا ہے جو معرکۂ احد میں موجود تھا، عبداللہ بن اُبی نے اجازت چاہی کہ آپ کا ہم رکاب ہو، مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت نہ دی، ادھر جتنے مسلمان تھے اگرچہ زخموں سے چور، غم سے نڈھال اور اندیشہ وخوف سے دوچار تھے، لیکن سب نے بلا تردد سرِ اطاعت خم کردیا۔

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بھی اجازت چاہی جو جنگ اُحد میں شریک نہ تھے، حاضر خدمت ہوکر عرض پرداز ہوئے: "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں چاہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس کسی جنگ میں تشریف لے جائیں، میں بھی حاضر خدمت رہوں اور چونکہ (اس جنگ میں ) میرے والد نے مجھے اپنی بچیوں کی دیکھ بھال کے لیے گھر پر روک دیا تھا، لہٰذا آپ مجھے اجازت دے دیں کہ میں بھی آپ کے ساتھ چلوں۔" اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔

پروگرام کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کو ہمراہ لے کر روانہ ہوئے اور مدینے سے آٹھ میل دور "حمراء الاسد" پہنچ کر خیمہ زن ہوئے۔

اثناء قیام میں معبد بن ابی معبد خزاعی (رضی اللہ عنہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوا، کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے شرک ہی پر قائم تھا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خیر خواہ تھا، کیونکہ خزاعہ اور بنو ہاشم کے درمیان حلف (یعنی دوستی وتعاون کا عہد) تھا، بہرکیف اس نے کہا: "اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! آپ کو اور آپ کے رفقاء کو جو زک پہنچی ہے وہ واللہ ہم پر سخت گراں گزری ہے، ہماری آرزو تھی کہ اللہ آپ کو بعافیت رکھتا۔" اس اظہارِ ہمدردی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ ابو سفیان کے پاس جائے اور اس کی حوصلہ شکنی کرے۔

ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو اندیشہ محسوس کیا تھا کہ مشرکین مدینے کی طرف پلٹنے کی بات سوچیں گے وہ بالکل برحق تھا، چنانچہ مشرکین نے مدینے سے 34 میل دور مقام " رَوحاء " پر پہنچ کر جب پڑاؤ ڈالا تو آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کی، کہنے لگے: "تم لوگوں نے کچھ نہیں کیا، ان کی شوکت وقوت توڑ کر انہیں یوں ہی چھوڑ دیا، حالانکہ ابھی ان کے اتنے سر باقی ہیں کہ وہ تمہارے لیے پھر دردِ سر بن سکتے ہیں، لہٰذا واپس چلو اور انہیں جڑ سے صاف کردو۔"

لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سطحی رائے تھی جو ان لوگوں کی طرف سے پیش کی گئی تھی، جنہیں فریقین کی قوت اور ان کے حوصلوں کا صحیح اندازہ نہ تھا، اسی لیے ایک ذمہ دار افسر صفوان بن امیہ نے اس رائے کی مخالفت کی اور کہا: "لوگو! ایسا نہ کرو، مجھے خطرہ ہے کہ جو (مسلمان غزوۂ احد میں) نہیں آئے تھے، وہ بھی اب تمہارے خلاف جمع ہوجائیں گے، لہٰذا اس حالت میں واپس چلے چلو کہ فتح تمہاری ہے، ورنہ مجھے خطرہ ہے کہ مدینے پر پھر چڑھائی کرو گے تو گردش میں پڑجاؤ گے۔"

لیکن بھاری اکثریت نے یہ رائے قبول نہ کی اور فیصلہ کیا کہ مدینے واپس چلیں گے۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں