سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 166


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 166

غزوہ احد کے بعد فوجی مہمات:

مسلمانوں کی شہرت اور ساکھ پر احد کی ناکامی کا بہت برا اثر پڑا، ان کی ہوا اکھڑ گئی اور مخالفین کے دلوں سے ان کی ہیبت جاتی رہی، اس کے نتیجے میں اہلِ ایمان کی داخلی اور خارجی مشکلات میں اضافہ ہوگیا، مدینے پر ہرجانب سے خطرات منڈلانے لگے، یہود، منافقین اور بدّوؤں نے کھُل کر عداوت کا مظاہرہ کیا اور ہر گروہ نے مسلمانوں کو زک پہنچانے کی کوشش کی، بلکہ یہ توقع باندھ لی کہ وہ مسلمانوں کا کام تمام کرسکتا ہے اور انہیں بیخ وبن سے اکھاڑ سکتا ہے۔

چنانچہ اس غزوے پر ابھی دو مہینے بھی نہیں گزرے تھے کہ بنو اَسَد نے مدینے پر چھاپہ مارنے کی تیاری کی، پھر صفر 4 ھ میں عضل اور قارہ کے قبائل نے ایک ایسی مکارانہ چال چلی کہ دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جامِ شہادت نوش کرنا پڑا، ٹھیک اسی مہینے میں رئیس بنوعامر نے اسی طرح کی ایک دغابازی کے ذریعے ستر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شہادت سے ہمکنار کرایا، یہ حادثہ بئر معونہ کے نام سے معروف ہے، اس دوران بنو نَضِیر بھی کھُلی عداوت کا مظاہرہ شروع کر چکے تھے، یہاں تک کہ انہوں نے ربیع الاول 4 ھ میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہید کرنے کی کوشش کی، ادھر بنو غطفان کی جرأت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ انہوں نے جمادی الاولیٰ 4 ھ میں مدینے پر حملہ کا پروگرام بنایا، غرض مسلمانوں کی جو ساکھ غزوہ احد میں اُکھڑ گئی تھی، اس کے نتیجے میں مسلمان ایک مدت تک پیہم خطرات سے دوچار رہے۔

لیکن وہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت بالغہ تھی، جس نے سارے خطرات کا رُخ پھیر کر مسلمانوں کی ہیبت رفتہ واپس دلادی اور انہیں دوبارہ مجد وعزت کے مقامِ بلند تک پہنچا دیا، اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے پہلا قدم حمراء الاسد تک مشرکین کے تعاقب کا تھا، اس کارروائی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لشکر کی آبرو بڑی حد تک برقرار رہ گئی، کیونکہ یہ ایسا پر وقار اور شجاعت پر مبنی جنگی اقدام تھا کہ مخالفین خصوصاً منافقین اور یہود کا منہ حیرت سے کھُلے کا کھلا رہ گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلسل ایسی جنگی کارروائیاں کیں کہ ان سے مسلمانوں کی صرف سابقہ ہیبت ہی بحال نہیں ہوئی، بلکہ اس میں مزید اضافہ بھی ہو گیا، آگے انہی کا کچھ تذکرہ کیا جارہا ہے۔

1: سریۂ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ

جنگ اُحد کے بعد مسلمانوں کے خلاف سب سے پہلے بنو اسد بن خزیمہ کا قبیلہ اٹھا، اس کے متعلق مدینے میں یہ اطلاع پہنچی کہ خُویلِد کے دو بیٹے طلحہ اور سلمہ اپنی قوم اور اپنے اطاعت شعاروں کو لے کر بنو اسد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملے کی دعوت دیتے پھر رہے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھٹ ڈیڑھ سو انصار ومہاجرین کا ایک دستہ تیار فرمایا اور حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کو اس کا عَلَم دے کر اور سپہ سالار بنا کر روانہ فرمادیا، حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے بنو اسد کے حرکت میں آنے سے پہلے ہی ان پر اس قدر اچانک حملہ کیا کہ وہ بھاگ کر اِدھر اُدھر بکھر گئے، مسلمانوں نے ان کے اونٹ اور بکریوں پر قبضہ کرلیا اور سالم وغانم مدینہ واپس آگئے، انہیں دو بُدو جنگ بھی نہیں لڑنی پڑی۔

یہ سریہ محرم 4 ھ کا چاند نمودار ہونے پر روانہ کیا گیا تھا، واپسی کے بعد حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کا ایک زخم جو انہیں اُحد میں لگا تھا، پھُوٹ پڑا اور اس کی وجہ سے وہ جلد ہی وفات پاگئے۔ (زادا لمعاد ۲/۱۰۸)

2: عبد اللہ بن اُنیس رضی اللہ عنہ کی مہم

اسی ماہ محرم 4 ھ کی 5 تاریخ کو یہ خبر ملی کہ خالد بن سفیان ہُذلی مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے فوج جمع کر رہا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے خلاف کارروائی کے لیے عبداللہ بن اُنیس رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا، عبداللہ بن اُنیس رضی اللہ عنہ مدینہ سے 18 روز باہر رہ کر 23 محرم کو واپس تشریف لائے، وہ خالد کو قتل کرکے اس کا سر بھی ہمراہ لائے تھے، جب خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو کر انہوں نے یہ سر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کیا تو آپ نے انہیں ایک عصا مرحمت فرمایا اور فرمایا کہ یہ میرے اور تمہارے درمیان قیامت کے روز نشانی رہے گا، چنانچہ جب ان کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے وصیت کی کہ یہ عصا بھی ان کے ساتھ ان کے کفن میں لپیٹ دیا جائے۔ ( زادالمعاد ۲/۱۰۹ , ابن ہشام ۲/۶۱۹ ، ۶۲۰)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں