سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 165


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 165

غزوۂ احد پر قرآن کا تبصرہ:

اس غزوہ کے انجام کے بارے میں بڑی طول طویل بحثیں کی گئی ہیں کہ آیا اسے مسلمانوں کی شکست سے تعبیر کیا جائے یا نہیں..؟ جہاں تک حقائق کا تعلق ہے تو اس میں شبہ نہیں کہ جنگ کے دوسرے راؤنڈ میں مشرکین کو بالاتری حاصل تھی اور میدان جنگ انہیں کے ہاتھ تھا، جانی نقصان بھی مسلمانوں ہی کا زیادہ ہوا اور زیادہ خوفناک شکل میں ہوا اور مسلمانوں کا کم از کم ایک گروہ یقیناً شکست کھا کر بھاگا اور جنگ کی رفتار مکی لشکر کے حق میں رہی، لیکن ان سب کے باوجود بعض امور ایسے ہیں جن کی بنا پر ہم اسے مشرکین کی فتح سے تعبیر نہیں کرسکتے۔

ایک تو یہی بات قطعی طور پر معلوم ہے کہ مکی لشکر مسلمانوں کے کیمپ پر قابض نہیں ہوسکا تھا اور مدنی لشکر کے بڑے حصے نے سخت اتھل پتھل اور بد نظمی کے باوجود فرار نہیں اختیار کیا تھا، بلکہ انتہائی دلیری سے لڑتے ہوئے اپنے سپہ سالار کے پاس جمع ہوگیا تھا، نیز مسلمانوں کا پلہ اس حد تک ہلکا نہیں ہوا تھا کہ مکی لشکر ان کا تعاقب کرتا، علاوہ ازیں کوئی ایک بھی مسلمان کافروں کی قید میں نہیں گیا، نہ کفار نے کوئی مال غنیمت حاصل کیا، پھر کفار جنگ کے تیسرے راونڈ کے لیے تیار نہیں ہوئے، حالانکہ اسلامی لشکر ابھی کیمپ ہی میں تھا، علاوہ ازیں کُفار نے میدان جنگ میں ایک یا دو دن یا تین دن قیام نہیں کیا، حالانکہ اس زمانے میں فاتحین کا یہی دستور تھا اور فتح کی یہ ایک نہایت ضروری علامت تھی، مگر کفار نے بالکل جھٹ پٹ واپسی اختیار کی اور مسلمانوں سے پہلے ہی میدان جنگ خالی کردیا، نیز انہیں ذریت اور مال لوٹنے کے لیے مدینے میں داخل ہونے کی جرأت نہ ہوئی، حالانکہ یہ شہر چند ہی قدم کے فاصلے پر تھا اور فوج سے مکمل طور پر خالی اور ایک دم کھُلا پڑا تھا، راستے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔

ان ساری باتوں کا ماحصل یہ ہے کہ قریش کو زیادہ سے زیادہ صرف یہ حاصل ہوا کہ انہوں نے ایک وقتی موقعے سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو ذرا سخت قسم کی زک پہنچادی، ورنہ اسلامی لشکر کو نرغے میں لینے کے بعد اسے کلی طور پر قتل یا قید کرلینے کا جو فائدہ انہیں جنگی نقطۂ نظر سے لازما ًحاصل ہونا چاہیے تھا، اس میں وہ ناکام رہے اور اسلامی لشکر قدرے بڑے خسارے کے باوجود نرغہ توڑ کر نکل گیا اور اس طرح کا خسارہ تو بہت سی دفعہ خود فاتحین کو برداشت کرنا پڑ تا ہے، اس لیے اس معاملے کو مشرکین کی فتح سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا، بلکہ واپسی کے لیے ابو سفیان کی عجلت اس بات کی غماز ہے کہ اسے خطرہ تھا کہ اگر جنگ کا تیسرا دور شروع ہوگیا تو اس کا لشکر سخت تباہی اور شکست سے دوچار ہوجائے گا، اس بات کی مزید تائید ابو سفیان کے اس موقف سے ہوتی ہے جو اس نے غزوہ حمراء الاسد کے تئیں اختیار کیا تھا۔

ایسی صورت میں ہم اس غزوے کو کسی ایک فریق کی فتح اور دوسرے کی شکست سے تعبیر کرنے کے بجائے غیر منفصل جنگ کہہ سکتے ہیں، جس میں ہر فریق نے کامیابی اور خسارے سے اپنا اپنا حصہ حاصل کیا، پھر میدان جنگ سے بھاگے بغیر اور اپنے کیمپ کو دشمن کے قبضہ کے لیے چھوڑے بغیر لڑائی سے دامن کشی اختیار کرلی اور غیر منفصل جنگ کہتے ہی اسی کو ہیں، اسی جانب اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے بھی اشارہ نکلتا ہے۔

''قوم (مشرکین ) کے تعاقب میں ڈھیلے نہ پڑو، اگر تم اَلم محسوس کررہے ہو تو تمہاری ہی طرح وہ بھی اَلم محسوس کررہے ہیں اور تم لوگ اللہ سے اس چیز کی امید رکھتے ہو جس کی وہ امید نہیں رکھتے..'' (۴: ۱۰۴)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ضرر پہنچانے اور ضرر محسوس کرنے میں ایک لشکر کو دوسرے لشکر سے تشبیہ دی ہے، جس کا مفاد یہ ہے کہ دونوں فریق کے موقف متماثل تھے اور دونوں فریق اس حالت میں واپس ہوئے تھے کہ کوئی بھی غالب نہ تھا۔

بعد میں قرآن مجید میں اس معرکے کے ایک ایک مرحلے پر روشنی ڈالی گئی اور تبصرہ کرتے ہوئے ان اسباب کی نشاندہی کی گئی جن کے نتیجے میں مسلمانوں کو اس عظیم خسارے سے دوچار ہونا پڑا تھا اور بتلایا گیا کہ اس طرح کے فیصلہ کن مواقع پر اہل ایمان اور یہ امت (جسے دوسروں کے مقابل خیرِ اُمت ہونے کا امتیاز حاصل ہے) جن اونچے اور اہم مقاصد کے حصول کے لیے وجود میں لائی گئی ہے، ان کے لحاظ سے ابھی اہل ایمان کے مختلف گروہوں میں کیا کیا کمزوریاں رہ گئی ہیں۔

اسی طرح قرآن مجید نے منافقین کے موقف کا ذکر کرتے ہوئے ان کی حقیقت بے نقاب کی، ان کے سینوں میں اللہ اور رسول کے خلاف چھپی ہوئی عداوت کا پردہ فاش کیا اور سادہ لوح مسلمانوں میں ان منافقین اور ان کے بھائی یہود نے جو وسوسے پھیلارکھے تھے ان کا ازالہ فرمایا اور ان قابل ستائش حکمتوں اور مقاصد کی طرف اشارہ فرمایا جو اس معرکے کا حاصل تھیں۔

اس معرکے کے متعلق سورۂ آل عمران کی ساٹھ آیتیں نازل ہوئیں، سب سے پہلے معرکے کے ابتدائی مرحلے کا ذکر کیا گیا۔ ارشاد ہوا:

''یاد کرو جب تم اپنے گھر سے نکل کر (میدان احد میں گئے اور وہاں ) مومنین کو قتال کے لیے جابجا مقرر کررہے تھے۔'' (۳: ۱۲۱)

پھر اخیر میں اس معرکے کے نتائج اور حکمت پر ایک جامع روشنی ڈالی گئی، ارشاد ہوا:

''ایسا نہیں ہوسکتا کہ اللہ مومنین کو اسی حالت پر چھوڑ دے جس پر تم لوگ ہو، یہاں تک کہ خبیث کو پاکیزہ سے الگ کردے اور ایسا نہیں ہوسکتا کہ اللہ تمہیں غیب پر مطلع کرے، لیکن وہ اپنے پیغمبروں میں سے جسے چاہتا ہے منتخب کرلیتا ہے، پس اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور اگر تم ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کیا تو تمہارے لیے بڑا اجر ہے۔'' (۳:۱۷۹)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں