سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 125


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 125

کفار کے بارے میں اہم معلومات کا حصول:

غرض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 12 رمضان 2 ہجری مطابق 8 مارچ 624ء تقریباً تین سو جاں نثاروں کے ساتھ شہر سے نکلے، ایک میل چل کر فوج کا جائزہ لیا، جو کم عمر تھے واپس کر دئے گئے کہ ایسے پرخطر موقع پر بچوں کا کام نہیں۔

عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ایک کم سن بچے تھے، جب ان سے واپسی کو کہا گیا تو رو پڑے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی، عمیر رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کم سن سپاہی کے گلے میں تلوار حمائل کر دی، اب فوج کی کل تعداد (۳۱۳) تھی جس میں ساٹھ مہاجرین اور باقی انصار تھے، چونکہ غیاب میں منافقین اور یہود کی طرف سے اطمینان نہ تھا، اس لئے حضرت ابولبابہ بن عبدالمنذر رضی اللہ عنہ کو مدینہ کا حاکم مقرر فرمایا اور حکم دیا کہ مدینہ واپس جائیں، عالیہ (مدینہ کی بالائی آبادی) پر عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا، ان انتظامات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدر کی طرف بڑھے، جدھر سے اہل مکہ کی آمد کی خبر تھی۔

بدر دراصل ایک کنویں کا نام تھا جو اس نواح کے ایک سردار بدر بن حارث یا بدر بن کلدہ نے کھدوایا تھا، لیکن بعد میں یہ ساری وادی بدر کے نام سے مشہور ہوگئی، یہاں ہر سال میلہ بھی لگتا تھا، یہ مدینہ منورہ سے تقریباً (80) میل کے فاصلہ پر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو خبر رساں لبیسہ اور عدی کو آگے روانہ کر دیا، تاکہ قریش کی نقل و حرکت کی خبر لائیں، روحا، منصرف، ذات اجلال، معلات، ائیل سے گزرتے ہوئے 17 رمضان کو بدر کے قریب پہنچے، خبر رسانوں نے خبر کی کہ قریش وادی کے دوسرے سرے تک آگئے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہیں رک گئے اور فوجیں اتر پڑیں۔

یہاں پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رفیق غار حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ہمراہ لیا اور خود فراہمی اطلاعات کے لیے نکل پڑے، ابھی دور ہی سے مکی لشکر کے کیمپ کا جائزہ لے رہے تھے کہ ایک بوڑھا عرب مل گیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے قریش اور محمد واصحابِ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حال دریافت کیا، دونوں لشکروں کے متعلق پو چھنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ کی شخصیت پر پردہ پڑا رہے۔

اس نے کہا: "مجھے معلوم ہوا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھی فلاں روز نکلے ہیں، اگر مجھے بتانے والے نے صحیح بتایا ہے تو آج وہ لوگ فلاں جگہ ہوں گے اور ٹھیک اس جگہ کی نشاندہی کی جہاں اس وقت مدینے کا لشکر تھا اور مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ قریش فلاں دن نکلے ہیں، اگر خبر دینے والے نے صحیح خبر دی ہے تو وہ آج فلاں جگہ ہوں گے اور ٹھیک اس جگہ کا نام لیا، جہاں اس وقت مکے کا لشکر تھا۔''

اسی روز شام کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دشمن کے حالات کا پتا لگانے کے لیے نئے سرے سے جاسوسی دستہ روانہ فرمایا، اس کارروائی کے لیے مہاجرین کے تین قائد علی بن ابی طالب، زُبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم صحابہ کرام کی ایک جماعت کے ہمراہ روانہ ہوئے، یہ لوگ سیدھے بدر کے چشمے پر پہنچے، وہاں دو غلام مکی لشکر کے لیے پانی بھر رہے تھے، انہیں گرفتار کرلیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا، اس وقت آپ نماز پڑھ رہے تھے۔

صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان دونوں سے حالات دریافت کیے، انہوں نے کہا: "ہم قریش کے سقے ہیں، انہوں نے ہمیں پانی بھرنے کے لیے بھیجا ہے۔" صحابہ کو یہ جواب پسند نہ آیا، چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان دونوں کی ذرا سخت پٹائی کردی اور انہوں نے مجبور ہو کر کہہ دیا کہ ہم ابو سفیان کے آدمی ہیں (یعنی قافلے کے ساتھ ہیں) اس کے بعد مارنے والوں نے ہاتھ روک لیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو ناراضی سے فرمایا: "جب ان دونوں نے صحیح بات بتائی تو آپ لوگوں نے پٹائی کردی اور جب جھوٹ کہا تو چھوڑ دیا، اللہ کی قسم! ان دونوں نے صحیح کہا تھا کہ یہ قریش کے آدمی ہیں۔"

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ان دونوں غلاموں سے فرمایا: اچھا! اب مجھے قریش کے متعلق بتاؤ۔"
انہوں نے کہا: "یہ ٹیلہ جو وادی کے آخری دہانے پر دکھائی دے رہا ہے، قریش اسی کے پیچھے ہیں۔"
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: "لوگ کتنے ہیں؟"
انہوں نے کہا: "بہت ہیں۔"
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: "تعداد کتنی ہے؟"
انہوں نے کہا: "ہمیں معلوم نہیں۔"
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "روزانہ کتنے اُونٹ ذبح کرتے ہیں۔"
انہوں نے کہا: "ایک دن نو اور ایک دن دس۔"
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "تب لوگوں کی تعداد نو سو اور ایک ہزار کے درمیان ہے،
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: "ان کے اندر معززین قریش میں سے کون کون ہیں؟"
انہوں نے کہا: "ربیعہ کے دونوں صاحبزادے عتبہ اور شیبہ اور ابوالبختری بن ہشام، حکیم بن حزام، نوَفل بن خُوَیْلد، حارث بن عامر، طعیمہ بن عدی، نضر بن حارث، زمعہ بن اسود، ابوجہل بن ہشام، اُمیہ بن خلف۔ اور مزید کچھ لوگوں کے نام گنوائے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا: ''مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تمہارے پاس لا کر ڈال دیا ہے۔"

==================>> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں