سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 133


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 133

ایمان کے تابناک نقوش:

حضرت عمیر بن الحمام رضی اللہ عنہ اور حضرت عوف بن حارث ابن عَفراء رضی اللہ عنہ کے ایمان افروز کارناموں کا ذکر پچھلے صفحات میں آچکا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس معرکے میں قدم قدم پر ایسے مناظر پیش آئے جن میں عقیدے کی قوت اور اصول کی پختگی نمایاں اور جلوہ گر تھی، اس معرکے میں باپ اور بیٹے میں، بھائی اور بھائی میں صف آرائی ہوئی، اصولوں کے اختلاف پر تلواریں بے نیام ہوئیں اور مظلوم ومقہور نے ظالم وقاہر سے ٹکرا کر اپنے غصے کی آگ بجھائی۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیا اور قرابت کی کوئی پروا نہ کی، بلکہ مدینہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس (رضی اللہ عنہ) کو قید میں پا کر کہا: "اے عباس! اسلام لائیے! واللہ آپ اسلام لائیں تو یہ میرے نزدیک خطاب کے بھی اسلام لانے سے زیادہ پسند ہے اور ایسا صرف اس لیے ہے کہ میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کا اسلام لانا پسند ہے۔" (مستدرک حاکم (فتح القدیر للشوکانی ۲/۳۲۷ )

جس وقت مسلمانوں نے مشرکین کی گرفتاری شروع کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھپر میں تشریف فرما تھے اور حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ تلوار حمائل کیے دروازے پر پہرہ دے رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے چہرے پر لوگوں کی اس حرکت کا ناگوار اثر پڑ رہا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''اے سعد! واللہ! ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تم کو مسلمانوں کا یہ کام ناگوار ہے۔'' انہوں نے کہا: "جی ہاں! اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! یہ اہل شرک کے ساتھ پہلا معرکہ ہے جس کا موقع اللہ نے ہمیں فراہم کیا ہے، اس لیے اہلِ شرک کو باقی چھوڑنے کے بجائے مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے کہ انہیں خوب قتل کیا جائے اور اچھی طرح کچل دیا جائے۔''

اس جنگ میں حضرت عکاشہ بن محصن اسدی رضی اللہ عنہ کی تلوار ٹوٹ گئی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے انہیں لکڑی کا ایک پھٹا تھما دیا اور فرمایا: "عکاشہ! اسی سے لڑائی کرو۔"

عکاشہ رضی اللہ عنہ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر ہلا یا تو وہ ایک لمبی، مضبوط اور چم چم کرتی ہوئی سفید تلوار میں تبدیل ہوگیا، پھر انہو ں نے اسی سے لڑائی کی، یہاں تک کہ اللہ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی۔

اس تلوار کا نام "عون" یعنی مدد رکھا گیا تھا، یہ تلوار مستقلاً حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ کے پاس رہی اور وہ اسی کو لڑائیوں میں استعمال کرتے رہے، یہاں تک کہ دَورِ صدیقی میں مرتدین کے خلاف جنگ کرتے ہوئے شہید ہوگئے، اس وقت بھی یہ تلوار اُن کے پاس ہی تھی۔

خاتمۂ جنگ کے بعد حضرت مُصعب بن عمیر عبدری رضی اللہ عنہ اپنے بھائی ابوعزیر بن عُمیر عبدری کے پاس سے گزرے، ابوعزیز نے مسلمانوں کے خلاف جنگ لڑی تھی اور اس وقت ایک انصاری صحابی اِس کا ہاتھ باندھ رہے تھے۔

حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے اس انصاری سے کہا: ''اس شخص کے ذریعے اپنے ہاتھ مضبوط کرنا، اس کی ماں بڑی مالدار ہے، وہ غالباً تمہیں اچھا فدیہ دے گی۔'' اس پر ابوعزیز نے اپنے بھائی مُصعب رضی اللہ عنہ سے کہا: "کیا میرے بارے میں تمہاری یہی وصیت ہے؟" حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "(ہاں) تمہارے بجائے یہ انصاری میرا بھائی ہے۔"

جب مشرکین کی لاشوں کو کنویں میں ڈالنے کا حکم دیا گیا اور عتبہ بن ربیعہ کو کنویں کی طرف گھسیٹ کر لے جایا جانے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے صاحبزادے حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے چہرے پر نظر ڈالی، دیکھا تو غمزدہ تھے، چہرہ بدلا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''ابو حذیفہ! غالباً اپنے والد کے سلسلے میں تمہارے دل کے اندر کچھ احساسات ہیں۔؟''

انہوں نے کہا: '' نہیں واللہ! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرے اندر اپنے باپ کے بارے میں اور ان کے قتل کے بارے میں ذرا بھی لرزش نہیں، البتہ میں اپنے باپ کے متعلق جانتا تھا کہ ان میں سوجھ بوجھ ہے، دوراندیشی اور فضل وکمال ہے، اس لیے میں آس لگائے بیٹھا تھا کہ یہ خوبیاں انہیں اسلام تک پہنچا دیں گی، لیکن اب ان کا انجام دیکھ کر اور اپنی توقع کے خلاف کفر پر ان کا خاتمہ دیکھ کر مجھے افسوس ہے۔'' اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دعائے خیر فرمائی اور ان سے بھلی بات کہی۔

یہ معرکہ، مشرکین کی شکست فاش اور مسلمانوں کی فتح مبین پر ختم ہوا، اس میں چودہ مسلمان شہید ہوئے، چھ مہاجرین میں سے اور آٹھ انصار میں سے، لیکن مشرکین کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا، نامور رؤساء قریش مارے گئے، جن میں شیبہ، عتبہ، ابو جہل، ابوالخبتری، زمعہ بن الاسود، غاص بن ہشام، امیہ بن خلف، منبہ بن الحجاج شامل ہیں، ان کے ستر آدمی مارے گئے اور ستر قید کیے گئے جو عموماً قائد، سردار اور بڑے بڑے سر بر آوردہ حضرات تھے۔

خاتمۂ جنگ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقتولین کے پاس کھڑے ہوکر فرمایا: "تم لوگ اپنے نبی کے لیے کتنا برا کنبہ اور قبیلہ تھے، تم نے مجھے جھٹلایا، جبکہ اوروں نے میری تصدیق کی، تم نے مجھے بے یارومددگار چھوڑا جبکہ اوروں نے میری تائید کی، تم نے مجھے نکالا جبکہ اوروں نے مجھے پناہ دی۔'' اس کے بعد آپ نے حکم دیا اور انہیں گھسیٹ کر بدر کے ایک کنویں میں ڈال دیا گیا۔

حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے بدر کے روز قریش کے چوبیس بڑے بڑے سرداروں کی لاشیں بدر کے ایک گندے خبیث کنویں میں پھینک دی گئیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دستورتھا کہ آپ جب کسی قوم پر فتح یاب ہوتے تو تین دن میدانِ جنگ میں قیام فرماتے تھے، چنانچہ جب بدر میں تیسرا دن آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسب الحکم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری پر کجاوہ کسا گیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدل چلے اور پیچھے پیچھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی چلے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کنویں کی بار پر کھڑے ہوگئے، پھر انہیں ان کا اور ان کے باپ کا نام لے لے کر پکارنا شروع کیا۔

"اے فلاں بن فلاں اور اے فلاں بن فلاں! کیا تمہیں یہ بات خوش آتی ہے کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی؟ کیونکہ ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا اسے ہم نے برحق پایا تو کیا تم سے تمہارے رب نے جو وعدہ کیا تھا اسے تم نے برحق پایا؟"

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ ایسے جسموں سے کیا باتیں کررہے ہیں جن میں رُوح ہی نہیں؟"

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے! میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اسے تم لوگ ان سے زیادہ نہیں سن رہے ہو۔" ایک اور روایت میں ہے کہ "تم لوگ ان سے زیادہ سننے والے نہیں، لیکن یہ لوگ جواب نہیں دے سکتے۔" (متفق علیہ , مشکوٰۃ ۲/۳۴۵)

==================>> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں