سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 136


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 136

بدر کے قیدیوں کا قضیہ:

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ پہنچ گئے تو آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا۔

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ''یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! یہ لوگ چچیرے بھائی اور کنبے قبیلے کے لوگ ہیں، میری رائے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے فدیہ لے لیں، اس طرح جو کچھ ہم لیں گے وہ کفارکے خلاف ہماری قوت کا ذریعہ ہوگا اور یہ بھی متوقع ہے کہ اللہ انہیں ہدایت دے دے اور وہ ہمارے بازو بن جائیں۔''

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: '' (عمر) ابن خطاب! تمہاری کیا رائے ہے؟"
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ''واللہ! میری وہ رائے نہیں ہے جو ابوبکر کی ہے، میری رائے یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فلاں کو (جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قریبی تھا) میرے حوالے کردیں اور میں اس کی گردن ماروں، عقیل بن ابی طالب کو علی (رضی اللہ عنہ) کے حوالے کریں اور وہ اس کی گردن ماریں اور فلاں کو جو حمزہ (رضی اللہ عنہ) کا بھائی ہے، حمزہ (رضی اللہ عنہ) کے حوالے کریں اور وہ اس کی گردن مار دیں، یہاں تک کہ اللہ کو معلوم ہوجائے کہ ہمارے دلوں میں مشرکین کے لیے نرم گوشہ نہیں ہے اور یہ حضرات مشرکین کے صنادِید وائمہ اور قائدین ہیں۔''

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بات پسند فرمائی اور میری بات پسند نہیں فرمائی، چنانچہ قیدیوں سے فدیہ لینا طے کرلیا، اس کے بعد جب اگلا دن آیا تو میں صبح ہی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، وہ دونوں رو رہے تھے۔

میں نے کہا: ''اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! مجھے بتائیں آپ اور آپ کے ساتھی کیوں رو رہے ہیں؟ اگر مجھے بھی رونے کی وجہ ملی تو روؤں گا اور اگر نہ مل سکی تو آپ حضرات کے رونے کی وجہ سے روؤں گا۔''

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''فدیہ قبول کرنے کی وجہ سے تمہارے اصحاب پر جو چیز پیش کی گئی ہے، اسی کی وجہ سے رو رہا ہوں۔'' اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک قریبی درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "مجھ پر ان کا عذاب اس درخت سے بھی زیادہ قریب پیش کیا گیا اور اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

''کسی نبی کے لیے درست نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں، یہاں تک کہ وہ زمین میں اچھی طرح خونریزی کرلے، تم لوگ دنیا کا سامان چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے، اگر اللہ کی طرف سے نوشتہ سبقت نہ کرچکا ہوتا تو تم لوگوں نے جو کچھ لیا ہے، اس پر تم کو سخت عذاب پکڑ لیتا۔" ﴿٦٨﴾ (۸: ۶۷،۶۸ )

بہر حال چونکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق معاملہ طے ہوچکا تھا، اس لیے مشرکین سے فدیہ لیا گیا، فدیہ کی مقدار چار ہزار اور تین ہزار درہم سے لے کر ایک ہزار درہم تک تھی، اہل مکہ لکھنا پڑھنا بھی جانتے تھے جبکہ اہل مدینہ لکھنے پڑھنے سے واقف نہ تھے، اس لیے طے کیا گیا کہ جس کے پاس فدیہ نہ ہو وہ مدینے کے دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھادے، جب یہ بچے اچھی طرح سیکھ جائیں تو یہی اس کا فدیہ ہوگا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیدیوں پر احسان بھی فرمایا اور انہیں فدیہ لیے بغیر رہا کردیا، اس فہرست میں مطلب بن حنطب، صیفی بن ابی رفاعہ اور ابو عزہ جمحی کے نام آتے ہیں، آخر الذکر کو آئندہ جنگ احد میں قید اور قتل کیا گیا۔ (تفصیل آگے آرہی ہے)

اسیرانِ جنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے داماد ابوالعاص (جو تاحال مشرک تھے) بھی تھے، جن کے پاس فدیہ کی رقم نہیں تھی، انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو (جو ان کی زوجہ تھیں اور مکہ میں تھیں) کہلا بھیجا کہ فدیہ کی رقم بھیج دیں، جب حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح ہوا تھا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جہیز میں ان کو ایک قیمتی ہار دیا تھا، حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے زر فدیہ کے ساتھ وہ ہار بھی گلے سے اتار کر بھیج دیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب وہ ہار دیکھا تو پرانی یادیں تازہ ہوگئیں، آپ بے اختیار رو پڑے اور صحابہ سے فرمایا کہ تمہاری مرضی ہو تو بیٹی کو ماں کی یادگار واپس کردوں، سب نے تسلیم کر لیا اور وہ ہار واپس کر دیا گیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوالعاص کو اس شرط پر چھوڑ دیا کہ وہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی راہ چھوڑ دیں گے، چنانچہ حضرت ابوالعاص نے ان کا راستہ چھوڑ دیا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے ہجرت فرمائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور ایک انصاری صحابی کو بھیج دیا کہ تم دونوں بطن یا جج میں رہنا، جب زینب تمہارے پاس سے گزریں تو ساتھ ہو لینا۔

یہ دونوں حضرات تشریف لے گئے اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو ساتھ لے کر مدینہ واپس آئے، بعد میں ابوالعاص رضی اللہ عنہ مدینہ آکر مسلمان ہو گئے۔

قیدیوں میں سہیل بن عمرو بھی تھا جو بڑا زبان آور خطیب تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہا نے کہا: ''اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! سہیل بن عمرو کے اگلے دو دانت تڑوا دیجیے! اس کی زبان لپٹ جایا کرے گی اور وہ کسی جگہ خطیب بن کر آپ کے خلاف کبھی کھڑا نہ ہو سکے گا۔"

لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی یہ گزارش مسترد کردی، کیونکہ یہ مثلے کے ضمن میں آتا ہے، جس پر قیامت کے روز اللہ کی طرف سے پکڑ کا خطرہ تھا۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں