سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 141


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 141

غزوہ بنو قینقاع: 

جب یہود نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے میدان بدر میں مسلمانوں کی زبردست مدد فرما کر انہیں عزت وشوکت سے سرفراز فرمایا ہے اور ان کا رعب ودبدبہ دور ونزدیک ہر جگہ رہنے والوں کے دلو ں پر بیٹھ گیا ہے تو ان کی عداوت وحسد کی ہانڈی پھٹ پڑی.. انہوں نے کھلم کھلا شر وعداوت کا مظاہرہ کیا اور علی الاعلان بغاوت وایذا رسانی پر اتر آئے..

ان میں سب سے زیادہ کینہ توز اور سب سے بڑھ کر شریر کعب بن اشرف تھا جس کا ذکر آگے آرہا ہے.. اسی طرح تینوں یہودی قبائل میں سب سے زیادہ بدمعاش بنو قینقاع کا قبیلہ تھا.. یہ لوگ مدینہ ہی کے اندر تھے اور ان کا محلہ انہی کے نام سے موسوم تھا.. یہ لوگ پیشے کے لحاظ سے سونار ، لوہار اور برتن ساز تھے.. ان پیشوں کے سبب ان کے ہرآدمی کے پاس وافر مقدار میں سامانِ جنگ موجود تھا.. ان کے مردان جنگی کی تعداد سات سو تھی اور وہ مدینے کے سب سے بہادر یہودی تھے.. انھی نے سب سے پہلے عہد شکنی کی..

جب اللہ تعالیٰ نے میدان بدر میں مسلمانوں کو فتح سے ہمکنار کیا تو ان کی سرکشی میں شدت آگئی.. انہوں نے اپنی شرارتوں ، خباثتوں اور لڑانے بھڑانے کی حرکتوں میں وسعت اختیار کرلی اور خلفشار پیدا کرنا شروع کر دیا.. چنانچہ جو مسلمان ان کے بازار میں جاتا , اس سے مذاق واستہزاء کرتے اور اسے اذیت پہنچاتے.. حتیٰ کہ مسلمان عورتوں سے بھی چھیڑ چھاڑ شروع کردی..

اس طرح جب صورت حال زیادہ سنگین ہوگئی اور ان کی سرکشی خاصی بڑھ گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں جمع فرما کر وعظ ونصیحت کی اور رشدو ہدایت کی دعوت دیتے ہوئے ظلم و بغاوت کے انجام سے ڈرایا لیکن اس سے ان کی بدمعاشی اور غرور میں کچھ اور ہی اضافہ ہوگیا..

چنانچہ امام ابو داؤد وغیرہ نے حضرت ابنِ عباس سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کو بدر کے دن شکست دے دی اور آپ مدینہ تشریف لائے تو بنو قینقاع کے بازار میں یہود کو جمع کیا اور فرمایا.. "اے جماعت یہود ! اس سے پہلے کہ تم پر بھی ویسی ہی مار پڑے جیسی قریش پر پڑ چکی ہے , اسلام قبول کرلو..''

انہوں نے کہا.. ''اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تمہیں اس بنا پر خود فریبی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ تمہاری مڈ بھیڑ قریش کے اناڑی اور نا آشنا ئے جنگ لوگوں سے ہوئی اور تم نے انہیں مارلیا.. اگر تمہاری لڑائی ہم سے ہوگئی تو پتہ چل جائے گا کہ ہم مرد ہیں اور ہمارے جیسے لوگوں سے تمہیں پالا نہ پڑا ہوگا.."

بنو قینقاع نے جو جواب دیا تھا اس کا مطلب صاف صاف اعلانِ جنگ تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا غصہ پی لیا اور صبر کیا.. مسلمانوں نے بھی صبر کیا اور آنے والے حالات کا انتظار کرنے لگے..

ادھر اس نصیحت کے بعد یہود بنو قینقاع کی جرأت رندانہ اور بڑھ گئی.. چنانچہ تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ انہوں نے مدینہ میں بلوہ اور ہنگامہ بپا کردیا جس کے نتیجے میں انہوں نے اپنے ہی ہاتھوں اپنی قبر کھود لی اور اپنے اوپر زندگی کی راہ بند کرلی..

ابن ہشام نے ابوعون سے روایت کی ہے کہ ایک عرب عورت بنو قینقاع کے بازار میں کچھ سامان لے کر آئی اور بیچ کر (کسی ضرورت کے لیے ) ایک سنار کے پاس جو یہودی تھا ، بیٹھ گئی.. یہودیوں نے اس کا چہرہ کھلوانا چاہا مگر اس نے انکار کردیا.. اس پر اس سنار نے چپکے سے اس کے کپڑے کا نچلا کنارا پچھلی طرف باندھ دیا اور اسے کچھ خبر نہ ہوئی.. جب وہ اٹھی اور بے پردہ ہوگئی تو یہودیوں نے قہقہہ لگایا.. اس پر اس عورت نے چیخ پکار مچائی جسے سن کر ایک مسلمان نے اس سنار پر حملہ کیا اور اسے مار ڈالا.. جوابا ً یہودیوں نے اس مسلمان پر حملہ کرکے اسے مارڈالا.. اس کے بعد مقتول مسلمان کے گھر والوں نے شور مچایا اور یہود کے خلاف مسلمانوں سے فریاد کی.. نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اور بنی قینقاع کے یہودیوں میں بلوہ ہو گیا..

(زاد المعاد ۲/۷۱،۹۱ ابن ہشام ۲؍۴۷ ، ۴۸ ، ۴۹)

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینے کا انتظام ابو لبابہ بن عبدالمنذر رضی اللہ عنہ کو سونپا اور خود حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں مسلمانوں کا پھریرا دے کر لشکر کے ہمراہ بنو قینقاع کا رخ کیا..

انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو گڑھیوں میں قلعہ بند ہوگئے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا سختی سے محاصرہ کر لیا.. یہ جمعہ کا دن تھا اور شوال 2ھ کی 15 تاریخ.. پندرہ روز تک محاصرہ جاری رہا.. پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا جس کی سنت ہی یہ ہے کہ جب وہ کسی قوم کو شکست وہزیمت سے دوچار کرنا چاہتا ہے تو ان کے دلوں میں رعب ڈال دیتا ہے.. چنانچہ بنو قینقاع نے اس شرط پر ہتھیار ڈال دیئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی جان ومال ، آل واولاد اور عورتوں کے بارے میں جو فیصلہ کریں گے انہیں منظور ہوگا.. اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے ان سب کو باندھ لیا گیا..

لیکن یہی موقع تھا جب عبداللہ بن اُبی نے اپنا منافقانہ کردار ادا کیا.. اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سخت اصرار والحاح کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے بارے میں معافی کا حکم صادر فرمائیں.. اس نے کہا.. "اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! میرے معاہدین کے بارے میں احسان کیجیے..''

واضح رہے کہ بنو قینقاع خزرج کے حلیف تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تاخیر کی.. اس پر اس نے اپنی بات پھر دہرائی مگر اب کی بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے رُخ پھیر لیا لیکن اس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گریبان میں اپنا ہاتھ ڈال دیا..

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "مجھے چھوڑ دو" اور ایسے غضبناک ہوئے کہ لوگوں نے غصے کی پرچھائیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے پر دیکھیں.. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "تجھ پر افسوس , مجھے چھوڑ.." لیکن یہ منافق اپنے اصرار پر قائم رہا اور بولا.. ''نہیں واللہ ! میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا , یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے معاہدین کے بارے میں احسان فرما دیں.. چار سو کھلے جسم کے جوان اور تین سو زِرہ پوش جنہوں نے مجھے سرخ وسیاہ سے بچایا تھا , آپ انہیں ایک ہی صبح میں کاٹ کر رکھ دیں گے..؟ واللہ ! میں اس سے زمانے کی گردش کا خطرہ محسوس کر رہا ہوں.."

بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس منافق کے ساتھ (جس کے اظہارِ اسلام پر ابھی کوئی ایک ہی مہینہ گزرا تھا) رعایت کا معاملہ کیا اور اس کی خاطر ان سب کی جان بخشی کردی.. البتہ انہیں حکم دیا کہ وہ مدینہ سے نکل جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پڑوس میں نہ رہیں.. چنانچہ یہ سب اذرعات شام کی طرف چلے گئے اور تھوڑے ہی دنوں بعد وہاں اکثر کی موت واقع ہوگئی..

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے اموال ضبط کر لیے جن میں سے تین کمانیں ، دو زِرہیں ، تین تلواریں اور تین نیزے اپنے لیے منتخب فرمائے اور مالِ غنیمت میں سے خمس بھی نکالا.. غنائم جمع کرنے کا کام محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے انجام دیا..

===========>> جاری ھے..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں