سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 127


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 127

لشکروں کی ترتیب اور شب گزاری:

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لشکر کی ترتیب فرمائی اور میدان جنگ میں تشریف لے گئے، وہاں آپ اپنے ہاتھ سے اشارہ فرماتے جارہے تھے کہ یہ کل فلاں کی قتل گاہ ہے، ان شاء اللہ اور یہ کل فلاں کی قتل گاہ ہے، ان شاء اللہ، مہاجرین کا عَلم حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو عنایت فرمایا، خزرج کے عَلم بردار حضرت خباب بن منذر رضی اللہ عنہ اور اوس کے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ مقرر ہوئے، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہیں ایک درخت کی جڑ کے پاس رات گزاری اور مسلمانوں نے بھی پُرسکون نفس اور تابناک اُفق کے ساتھ رات گزاری، ان کے دل اعتماد سے پُر تھے اور انہوں نے راحت وسکون سے اپنا حصہ حاصل کیا، انہیں یہ توقع تھی کہ صبح اپنی آنکھوں سے اپنے رب کی بشارتیں دیکھیں گے۔

''جب اللہ تم پر اپنی طرف سے امن وبے خوفی کے طور پر نیند طاری کررہا تھا اور تم پر آسمان سے پانی برسارہا تھا، تاکہ تمہیں اس کے ذریعے پاک کردے اور تم سے شیطان کی گندگی دور کردے اور تمہارے دل مضبوط کر دے اور تمہارے قدم جمادے۔'' (۸: ۱۱)

یہ رات جمعہ 18 رمضان 2 ھ کی رات تھی۔
دوسری طرف قریش نے وادی کے دہانے کے باہر اپنے کیمپ میں رات گزاری اور صبح اپنے تمام دستوں سمیت ٹیلے سے اتر کر بدر کی جانب روانہ ہوئے، ایک گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوض کی جانب بڑھا، آپ نے فرمایا: "انہیں چھوڑ دو،'' مگر ان میں سے جس نے بھی پانی پیا وہ اس جنگ میں مارا گیا، صرف حکیم بن حزام باقی بچے جو بعد میں مسلمان ہوئے اور بہت اچھے مسلمان ہوئے، ان کا دستور تھا کہ جب بہت پختہ قسم کھانی ہوتی، کہتے: ''لا والذی نجانی من یوم بدر'' قسم ہے اس ذات کی، جس نے مجھے بدر کے دن سے نجات دی-''

بہرحال جب قریش مطمئن ہوچکے تو انہوں نے مدنی لشکر کی قوت کا اندازہ لگانے کے لیے عمیر بن وہب جمحی کو روانہ کیا، عمیر نے گھوڑے پر سوار ہوکر لشکر کا چکر لگایا، پھر واپس جاکر بولا: ''کچھ کم یا کچھ زیادہ تین سو آدمی ہیں، لیکن ذرا ٹھہرو! میں دیکھ لوں ان کی کمین گاہ یا کمک تو نہیں؟'' اس کے بعد وہ وادی میں گھوڑا دوڑاتا ہوا دور تک نکل گیا، لیکن اسے کچھ دکھائی نہ پڑا۔

اس موقعے پر ابوجہل کے خلاف جو معرکہ آرائی پر تُلا ہوا تھا، ایک اور جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ جنگ کے بغیر مکہ واپس جائیں، چنانچہ حکیم بن حزام نے لوگوں کے درمیان دوڑ دھوپ شروع کردی، وہ عُتبَہ بن ربیعہ کے پاس آیا اور بولا: ''ابو الولید! آپ قریش کے بڑے آدمی اور واجب الاطاعت سردار ہیں، پھر آپ کیوں نہ ایک اچھا کام کرجائیں، جس کے سبب آپ کا ذکر ہمیشہ بھلائی سے ہوتا رہے۔''

عتبہ نے کہا: "حکیم! وہ کون سا کام ہے؟" اس نے کہا: "آپ لوگوں کو واپس لے جائیں اور اپنے حلیف عمرو بن حضرمی کا معاملہ جو سریہ نخلہ میں مارا گیا تھا، اپنے ذمے لے لیں۔" عتبہ نے کہا: "مجھے منظور ہے، تم میری طرف سے اس کی ضمانت لو، وہ میرا حلیف ہے، اس کی دیت کا بھی ذمے دار ہوں اور اس کا جو مال ضائع ہوا، اس کا بھی۔" اس کے بعد عتبہ نے حکیم بن حزام سے کہا: "تم حنظلیہ کے پوت کے پاس جاؤ، کیونکہ لوگوں کے معاملات کو بگاڑنے اور بھڑکانے کے سلسلے میں مجھے اس کے علاوہ کسی اور سے کوئی اندیشہ نہیں۔" حنظلیہ کے پوت سے مراد ابوجہل ہے، حنظلیہ اس کی ماں تھی۔

اس کے بعد عتبہ بن ربیعہ نے کھڑے ہو کر تقریر کی اور کہا: "قریش کے لوگو! تم لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں سے لڑ کر کوئی کارنامہ انجام نہ دوگے، اللہ کی قسم! اگر تم نے انہیں مار لیا تو صرف ایسے ہی چہرے دکھائی پڑیں گے جنہیں دیکھنا پسند نہ ہوگا، کیونکہ آدمی نے اپنے چچیرے بھائی کو یا خالہ زاد بھائی کو یا اپنے ہی کنبے قبیلے کے کسی آدمی کو قتل کیا ہوگا، اس لیے چلے چلو اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سارے عرب سے کنارہ کش ہو رہو، اگر عرب نے انہیں مارلیا تویہ وہی چیز ہوگی جسے تم چاہتے ہو اور اگر دوسری صورت پیش آئی تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں اس حالت میں پائیں گے کہ تم نے جو سلوک ان سے کرنا چاہا تھا، اسے کیا نہ تھا۔''

ادھر حکیم بن حزام ابوجہل کے پاس پہنچا تو ابو جہل اپنی زِرَہ درست کر رہا تھا، حکیم نے کہا: "اے ابو الحکم! مجھے عتبہ نے تمہارے پاس یہ اور یہ پیغام دے کر بھیجا ہے۔" ابو جہل نے کہا: "اللہ کی قسم! محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھیوں کو دیکھ کر عتبہ کا سینہ سوج آیا ہے، نہیں ہرگز نہیں! واللہ! ہم واپس نہ ہوں گے، یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان فیصلہ فرمادے، عتبہ نے جو کچھ کہا ہے، محض اس لیے کہا ہے کہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھیوں کو اونٹ خور سمجھتا ہے اور خود عتبہ کا بیٹا بھی انہیں کے درمیان ہے، اس لیے وہ تمہیں ان سے ڈراتا ہے۔" عتبہ کے صاحبزادے ابوحذیفہ قدیم الاسلام تھے اور ہجرت کرکے مدینہ تشریف لاچکے تھے۔

عتبہ کو پتا چلا کہ ابو جہل کہتا ہے "اللہ کی قسم عتبہ کا سینہ سوج آیا ہے'' تو بولا: ''اس سرین پر خوشبو لگا کر بزدلی کا مظاہرہ کرنے والے کو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ کس کا سینہ سوج آیا ہے، میرا یا اس کا؟"

ادھر ابوجہل نے اس خوف سے کہ کہیں یہ معارضہ طاقتور نہ ہوجائے، اس گفتگو کے بعد جھٹ عامر بن حضرمی کو جو سریہ عبداللہ بن جحش کے مقتول عمرو بن حضرمی کا بھائی تھا، بلا بھیجا اور کہا: "یہ تمہارا حلیف عتبہ چاہتا ہے کہ لوگوں کو واپس لے جائے، حالانکہ تم اپنا انتقام اپنی آنکھ سے دیکھ چکے ہو، لہٰذا اٹھو اور اپنی مظلومیت اور اپنے بھائی کے قتل کی دہائی دو۔"

اس پر عامر اُٹھا اور چیخا: "واعمراہ، واعمراہ! ہائے عمرو، ہائے عمرو۔" اس پر قوم گرم ہوگئی، ان کا معاملہ سنگین اور ان کا ارادۂ جنگ پختہ ہوگیا اور عتبہ نے جس سوجھ بوجھ کی دعوت دی تھی وہ رائیگاں گئی، اس طرح ہوش پر جوش غالب آگیا اور یہ معارضہ بھی بے نتیجہ رہا۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں