سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 144


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 144

سریہ زید بن حارثہ ؓ:

جنگ احد سے پہلے مسلمانوں کی یہ آخری اور کامیاب ترین مہم تھی، جو جمادی الآخر 3 ھ میں پیش آئی۔

واقعے کی تفصیل یہ ہے کہ قریش جنگ بدر کے بعد قلق واضطراب میں مبتلا تو تھے ہی، مگر جب گرمی کا موسم آگیا اور ملک شام کے تجارتی سفر کا وقت آن پہنچا توانہیں ایک اور فکر دامن گیر ہوئی، اس کی وضاحت اس سے ہوتی ہے کہ صفوان بن امیہ نے جسے قریش کی طرف سے اس سال ملکِ شام جانے والے تجارتی قافلے کا میر کارواں منتخب کیا گیا تھا، قریش سے کہا: ''محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھیوں نے ہماری تجارتی شاہراہ ہمارے لیے پُر صعوبت بنادی ہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم اس کے ساتھیوں سے کیسے نمٹیں، وہ ساحل چھوڑ کر ہٹتے ہی نہیں اور باشندگانِ ساحل نے ان سے مصالحت کرلی ہے، عام لوگ بھی انہیں کے ساتھ ہوگئے ہیں، اب سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کون سا راستہ اختیار کریں۔؟ اگر ہم گھروں ہی میں بیٹھ رہیں تو اپنا اصل مال بھی کھا جائیں گے اور کچھ باقی نہ بچے گا، کیونکہ مکے میں ہماری زندگی کا دار ومدار اس پر ہے کہ گرمی میں شام اور جاڑے میں حبشہ سے تجارت کریں۔''

صفوان کے اس سوال کے بعد اس موضوع پر غور وخوض شروع ہوگیا، آخر اسود بن عبدالمطلب نے صفوان سے کہا: ''تم ساحل کا راستہ چھوڑ کر عراق کے راستے سفر کرو۔'' واضح رہے کہ یہ راستہ بہت لمبا ہے، نجد سے ہو کر شام جاتا ہے اور مدینہ کے مشرق میں خاصے فاصلے سے گزرتا ہے، قریش اس راستے سے بالکل ناواقف تھے، اس لیے اسود بن عبد المطلب نے صفوان کو مشورہ دیا کہ وہ فرات بن حیان کو جو قبیلہ بکر بن وائل سے تعلق رکھتا تھا، راستہ بتانے کے لیے راہنما رکھ لے، وہ اس سفر میں اس کی رہنمائی کردے گا۔

اس انتظام کے بعد قریش کا کارواں صفوان بن امیہ کی قیادت میں نئے راستے سے روانہ ہوا، مگر اس کارواں اور اس کے سفر کے پورے منصوبے کی خبر مدینہ پہنچ گئی، ہوا یہ کہ سلیط بن نعمان رضی اللہ عنہ جو مسلمان ہوچکے تھے، نعیم بن مسعود کے ساتھ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، بادہ نوشی کی ایک مجلس میں جمع ہوئے، یہ شراب کی حرمت سے پہلے کا واقعہ ہے، جب نعیم پر نشے کا غلبہ ہوا تو انہوں نے قافلے اور اس کے سفر کے پورے منصوبے کی تفصیل بیان کرڈالی، سلیط رضی اللہ عنہ پوری برق رفتاری کے ساتھ خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے اور ساری تفصیل کہہ سنائی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوراً حملہ کی تیاری کی اور سو سواروں کا ایک رسالہ حضرت زید بن حارثہ کلبی رضی اللہ عنہ کی کمان میں دے کر روانہ کیا، حضرت زید رضی اللہ عنہ نے نہایت تیزی سے راستہ طے کیا اور ابھی قریش کا قافلہ بالکل بے خبری کے عالم میں قردہ نامی ایک چشمہ پر پڑاؤ ڈالنے کے لیے اُتررہا تھا کہ اسے جا لیا اور اچانک یلغار کرکے پورے قافلے پر قبضہ کرلیا، صفوان بن امیہ اور دیگر محافظین کارواں کو بھاگنے کے سوا کوئی چارۂ کار نظر نہ آیا۔

مسلمانوں نے قافلے کے راہنما فرات بن حیان اور مزید دو آدمیوں کو گرفتار کرلیا، ظروف اور چاندی کی بہت بڑی مقدار جو قافلے کے پاس تھی اور جس کا اندازہ ایک لاکھ درہم تھا، بطور غنیمت ہاتھ آئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خُمس نکال کر مالِ غنیمت رسالے کے افراد پر تقسیم کردیا اور فرات بن حیان نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کر لیا۔ (ابن ہشام ۲/۵۰ ، ۵۱۔ رحمۃ للعالمین ۲/۲۱۹)

بدر کے بعد قریش کے لیے یہ سب سے الم انگیز واقعہ تھا، جس سے ان کے قلق واضطراب اور غم والم میں مزید اضافہ ہوگیا، اب ان کے سامنے دو ہی راستے تھے، یا تو اپنا کبر وغرور چھوڑ کر مسلمانوں سے صلح کرلیں، یا بھر پور جنگ کرکے اپنی عزتِ رفتہ اور مجدِ گزشتہ کو واپس لائیں اور مسلمانوں کی قوت کو اس طرح توڑ دیں کہ وہ دوبارہ سر نہ اٹھا سکیں، قریش مکہ نے اسی دوسرے راستے کا انتخاب کیا، چنانچہ اس واقعہ کے بعد قریش کا جوشِ انتقام کچھ اور بڑھ گیا اور اس نے مسلمانوں سے ٹکر لینے اور ان کے دیار میں گھس کر ان پر حملہ کرنے کے لیے بھر پور تیاری شروع کردی۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح:

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا، حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں، ان کا پہلا نکاح خنیس بن خذافہ رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا اور انہوں نے ان ہی کے ساتھ مدینہ کو ہجرت کی، خنیس رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں زخمی ہوئے اور واپس آ کر ان ہی زخموں کی وجہ سے شہادت پائی، خنیس رضی اللہ عنہ نے اپنی یادگار میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے کوئی اولاد نہیں چھوڑی۔

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے بیوہ ہوجانے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے نکاح کی فکر ہوئی، اتفاق سے اسی زمانہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو چکا تھا، اس بناء پر سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے نکاح کی خواہش حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کی، انہوں نے کہا: "میں اس معاملہ میں غور کروں گا۔" حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا، انہوں نے خاموشی اختیار کی۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کی بے التفاتی کا رنج ہوا، انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شکایت کی کہ ان کے بہترین دوستوں نے ان کی بیٹی سے شادی کرنے سے انکار کر دیا ہے، حالانکہ وہ بڑی خوبیوں کی مالک ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی باتوں سے متاثر ہوئے اور بولے: "پرواہ نہ کرو، میں عثمان کے لئے تمہاری بیٹی سے بہتر بیوی کا انتظام کروں گا اور تمہاری بیٹی کو عثمان سے بہتر شوہر ملے گا۔" حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عقد میں اپنی دوسری بیٹی حضرت اُم کلثوم رضی اللہ عنہا دے کر انہیں اعزاز بخشنا چاہتے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیوہ بیٹی سے خود نکاح کرکے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وقار میں اضافہ کے خواہش مند تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا۔

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے 45 ہجری میں وفات پائی، مروان بن الحکم حاکم مدینہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بنی حزم کے گھر سے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے گھر تک جنازہ کو کندھا دیا، جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔

حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت:

15 رمضان المبارک کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی، آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں