سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 137


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 137

جنگِ بدر پر قرآن کا تبصرہ:

غزوہ بدر حق وباطل کے درمیان پہلا معرکہ تھا، اس جنگ کے بعد اسلام کا بول بالا ہوا اور کفر کو ذلت نصیب ہوئی، اس غزوہ میں کامیابی کا سب سے بڑا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں کو پورے عرب میں استقرار نصیب ہوا، تمام قوتیں ان کا لوہا ماننے پر مجبور ہوئیں، قریش کے مقابلہ میں مساوی فریق کی حیثیت حاصل ہوئی، انہیں مسلمانوں کی قوت کا احساس ہوا، قریش کی سیاسی شہرت اور سیاسی حیثیت بری طرح مجروح ہوئی، ان کی شام کی تجارتی شاہراہ غیر محفوظ ہو گئی، اسلام کی مرکزیت اور مدینہ کی مملکت مستحکم ہو گئی، عرب قبائل کوئی قدم اٹھانے سے پہلے سوچنے پر مجبور ہوگئے، یہود مدینہ معیشت، عسکری اور مادی وسائل کی بناء پر اپنے کو بر تر تصور کرتے تھے، اس فتح نے انہیں مرعوب کردیا اور یہود مسلمانوں کو اپنے لئے زبردست خطرہ محسوس کرنے لگے، ڈاکٹر حمیداللہ کا خیال ہے کہ اس فتح کے بعد یہودی میثاق مدینہ کو قبول کرنے پر مجبور ہو گئے۔
(شاہ مصباح الدین شکیل، سیرت احمد مجتبیٰ)

اصحاب بدر کے درجات بہت بلند ہیں، غزوہ بدر کا ذکر قرآن مجید میں سورۂ انفال میں آیا ہے، اسی غزوہ کے تعلق سے سورۂ انفال نازل ہوئی جو درحقیقت اس غزوہ پر ایک الٰہی تبصرہ ہے گر یہ تعبیر صحیح ہو، یہ تبصرہ بادشاہوں اور کمانڈروں وغیرہ کے فاتحانہ تبصروں سے بالکل ہی جدا گانہ ہے، اس تبصرے کی چند باتیں مختصراً یہ ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے مسلمانوں کی نظر ان کوتاہیوں اور اخلاقی کمزوریوں کی طرف مبذول کرائی جو ان میں فی الجملہ باقی رہ گئیں تھیں اور جن میں سے بعض بعض کا اظہار اس موقع پر ہوگیا تھا، اس توجہ دہانی کا مقصود یہ تھا کہ مسلمان اپنے آپ کو ان کمزوریوں سے پاک صاف کرکے کامل ترین بن جائیں۔

اس کے بعد اس فتح میں اللہ تعالیٰ کی جو تائید اور غیبی مدد شامل تھی اس کا ذکر فرمایا، اس کا مقصود یہ تھا کہ مسلمان اپنی شجاعت وبسالت کے فریب میں نہ آجائیں جس کے نتیجے میں مزاج وطبائع پر غرور وتکبر کا تسلط ہو جاتا ہے، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ پر توکل کریں اور اس کے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اطاعت کیش رہیں۔

پھر ان بلند اغراض ومقاصد کا تذکرہ کیاگیا ہے جن کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس خوفناک اور خون ریز معرکے میں قدم رکھا تھا اور اسی ضمن میں ان اخلاق واوصاف کی نشان دہی کی گئی ہے جو معرکوں میں فتح کا سبب بنتے ہیں۔

پھر مشرکین ومنافقین کو اور یہود اور جنگی قیدیوں کو مخاطب کرکے فصیح وبلیغ نصیحت فرمائی گئی ہے، تاکہ وہ حق کے سامنے جھک جائیں اور اس کے پابند بن جائیں۔

اس کے بعد مسلمانوں کو مالِ غنیمت کے معاملے میں مخاطب کرتے ہوئے انہیں اس مسئلے کے تمام بنیادی قواعد و اصول سمجھائے اور بتائے گئے ہیں۔

پھر اس مرحلے پر اسلامی دعوت کو جنگ وصلح کے جن قوانین کی ضرورت تھی ان کی توضیح اور مشروعیت ہے، تاکہ مسلمانوں کی جنگ اور اہل جاہلیت کی جنگ میں امتیاز قائم ہوجائے اور اخلاق وکردار کے میدان میں مسلمانوں کو برتری حاصل رہے اور دنیا اچھی طرح جان لے کہ اسلام محض ایک نظر یہ نہیں ہے، بلکہ وہ جن اصولوں اور ضابطوں کا داعی ہے ان کے مطابق اپنے ماننے والوں کی عملی تربیت بھی کرتا ہے۔

پھر اسلامی حکومت کے قوانین کی کئی دفعات بیان کی گئی ہیں، جن سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی حکومت کے دائرے میں بسنے والے مسلمان اور اس دائرے سے باہر رہنے والے مسلمانوں میں کیا فرق ہے۔

متفرق واقعات :

2 ھ میں رمضان کا روزہ اور صدقۂ فطر فرض کیا گیا اور زکوٰۃ کے مختلف نصابوں کی تفصیلاً تعیین کی گئی، صدقۂ فطر کی فرضیت اور زکوٰۃ کے نصاب کی تعیین سے اس بوجھ اور مشقت میں بڑی کمی آگئی جس سے فقراء مہاجرین کی ایک بڑی تعداد دوچار تھی، کیونکہ وہ طلب رزق کے لیے زمین میں دوڑ دھوپ کے امکانات سے محروم تھے۔

پھر نہایت نفیس موقع اور خوشگوار اتفاق یہ تھا کہ مسلمانوں نے اپنی زندگی میں پہلی عید جو منائی، وہ شوال 2 ھ کی عید تھی جو جنگ بدر کی فتح مبین کے بعد پیش آئی، کتنی خوشگوار تھی یہ عید سعید جس کی سعادت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے سر فتح وعزت کا تاج رکھنے کے بعد عطا فرمائی اور کتنا ایمان افروز تھا اس نماز عید کا منظر جسے مسلمانوں نے اپنے گھروں سے نکل کر تکبیر وتوحید اور تحمید وتسبیح کی آوازیں بلند کرتے ہوئے میدان میں جاکر ادا کیا تھا، اس وقت حالت یہ تھی کہ مسلمانوں کے دل اللہ کی دی ہوئی نعمتوں اور اس کی کی ہوئی تائید کے سبب اس کی رحمت ورضوان کے شوق سے لبریز اور اس کی طرف رغبت کے جذبات سے معمور تھے اور ان کی پیشانیاں اس کے شکر وسپاس کی ادائیگی کے لیے جھکی ہوئی تھیں، اللہ تعالیٰ نے اس نعمت کا ذکر اس آیت میں فرمایا ہے:

وَاذْكُرُ‌وا إِذْ أَنتُمْ قَلِيلٌ مُّسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْ‌ضِ تَخَافُونَ أَن يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُم بِنَصْرِ‌هِ وَرَ‌زَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُ‌ونَ (۸: ۲۶)

''اور یاد کرو! جب تم تھوڑے تھے، زمین میں کمزور بنا کر رکھے گئے تھے، ڈرتے تھے کہ لوگ تمہیں اچک لے جائیں گے، پس اس نے تمہیں ٹھکانا مرحمت فرمایا اور اپنی مدد کے ذریعے تمہاری تائید کی اور تمہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی دی، تاکہ تم لوگ اس کا شکر ادا کرو۔"

==================>> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں