سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 132


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 132

کفار کو شکستِ فاش:

تھوڑی دیر بعد مشرکین کے لشکر میں ناکامی اور اضطراب کے آثار نمودار ہوگئے، ان کی صفیں مسلمانوں کے سخت اور تابڑ توڑ حملوں سے درہم برہم ہونے لگیں اور معرکہ اپنے انجام کے قریب جا پہنچا، پھر مشرکین کے جھتے بے ترتیبی کے ساتھ پیچھے ہٹے اور ان میں بھگدڑ مچ گئی، مسلمانوں نے مارتے کاٹتے اور پکڑتے باندھتے ان کا پیچھا کیا، یہاں تک کہ ان کو بھرپور شکست ہوگئی۔

لیکن طاغوت اکبر ابوجہل نے جب اپنی صفوں میں اضطراب کی ابتدائی علامتیں دیکھیں تو چاہا کہ اس سیلاب کے سامنے ڈٹ جائے، چنانچہ وہ اپنے لشکر کو للکارتا ہوا اکڑ اور تکبر کے ساتھ کہتا جارہا تھا کہ "سراقہ کی کنارہ کشی سے تمہیں پست ہمت نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ اس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ پہلے سے ساز باز کر رکھی تھی، تم پر عتبہ، شیبہ اور ولید کے قتل کا ہول بھی سوار نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ ان لوگوں نے جلد بازی سے کام لیا تھا، لات وعزیٰ کی قسم! ہم واپس نہ ہوں گے، یہاں تک کہ انہیں رسیوں میں جکڑ لیں، دیکھو! تمہارا کوئی آدمی ان کے کسی آدمی کو قتل نہ کرے، بلکہ انہیں پکڑو اور گرفتار کرو، تاکہ ہم ان کی بُری حرکت کا انہیں مزہ چکھائیں۔"

لیکن اسے اس غرور کی حقیقت کا بہت جلد پتہ لگ گیا، کیونکہ چند ہی لمحے بعد مسلمانوں کے جوابی حملے کی تندی کے سامنے مشرکین کی صفیں پھٹنا شروع ہوگئیں، البتہ ابوجہل اب بھی اپنے گرد مشرکین کا ایک غول لیے جما ہوا تھا، اس غول نے ابوجہل کے چاروں طرف تلواروں کی باڑھ اور نیزوں کا جنگل قائم کر رکھا تھا، لیکن اسلامی ہجوم کی آندھی نے اس باڑھ کو بھی بکھیر دیا اور اس جنگل کو بھی اکھیڑ دیا، اس کے بعد یہ طاغوتِ اکبر دکھائی پڑا، مسلمانوں نے دیکھا کہ وہ ایک گھوڑے پر چکر کاٹ رہا ہے، ادھر اس کی موت دو انصاری جوانوں کے ہاتھوں اس کا خون چوسنے کی منتظر تھی۔

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں جنگ بدر کے روز صف کے اندر تھا کہ اچانک مڑا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دائیں بائیں دو نوعمر جوان ہیں، گویا ان کی موجودگی سے میں حیران ہو گیا کہ اتنے میں ایک نے اپنے ساتھی سے چھپا کر مجھ سے کہا: ''چچاجان! مجھے ابوجہل کو دکھلا دیجیے۔" میں نے کہا: "بھتیجے! تم اسے کیا کرو گے؟" اس نے کہا: ''مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دیتا ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو میرا وجود اس کے وجود سے الگ نہ ہوگا، یہاں تک کہ ہم میں جس کی موت پہلے لکھی ہے، وہ مر جائے۔''

وہ کہتے ہیں کہ مجھے اس پر تعجب ہوا، اتنے میں دوسرے جوان نے مجھے اشارے سے متوجہ کرکے یہی بات کہی، ان کا بیان ہے کہ میں نے چند ہی لمحوں بعد دیکھا کہ ابوجہل لوگوں کے درمیان چکر کاٹ رہا ہے، میں نے کہا: ''ارے دیکھتے نہیں! یہ رہا تم دونوں کا شکار، جس کے بارے میں تم پوچھ رہے تھے۔''

ان کا بیان ہے کہ یہ سنتے ہی وہ دونوں اپنی تلواریں لیے جھپٹ پڑے اور اسے مار کر قتل کردیا، پھر پلٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کس نے قتل کیا ہے؟" دونوں نے کہا: "میں نے قتل کیا ہے۔" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اپنی اپنی تلواریں پونچھ چکے ہو؟" بولے نہیں!
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں کی تلواریں دیکھیں اور فرمایا: "تم دونوں نے قتل کیا ہے۔" البتہ ابوجہل کا سامان معاذ بن عَمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کو دیا، دونوں حملہ آوروں کا نام معاذ بن عَمرو بن جموح رضی اللہ عنہ اور معاذ بن عفراء رضی اللہ عنہ ہے۔ (صحیح بخاری ۱/۴۴۴ ، ۲/۵۶۸ مشکوٰۃ ۲/۳۵۲)

نیز ابوجہل کا سامان صرف ایک ہی آدمی کو اس لیے دیا گیا کہ بعد میں حضرت معاذ (معوذ) بن عفراء رضی اللہ عنہ اسی جنگ میں شہید ہوگئے تھے، البتہ ابوجہل کی تلوار حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو دی گئی، کیونکہ ان ہی نے اس (ابوجہل) کا سر تن سے جدا کیا تھا- (سنن ابی داؤد باب من اجاز علی جریح الخ ۲/۳۷۳)

ابن اسحاق کا بیان ہے کہ معاذ بن عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ میں نے مشرکین کو سنا وہ ابوجہل کے بارے میں جو گھنے درختوں جیسی نیزوں اور تلواروں کی باڑھ میں تھا، کہہ رہے تھے "ابو الحکم تک کسی کی رسائی نہ ہو۔" معاذ بن عمرو کہتے ہیں کہ جب میں نے یہ بات سنی تو اسے اپنے نشانے پر لے لیا اور اس کی سمت جما رہا، جب گنجائش ملی تو میں نے حملہ کر دیا اور ایسی ضرب لگائی کہ اس کا پاؤں نصف پنڈلی سے اڑ گیا، واللہ! جس وقت یہ پاؤں اڑا ہے تو میں اس کی تشبیہ صرف اس گٹھلی سے دے سکتا ہوں، جو موسل کی مار پڑنے سے جھٹک کر اڑ جائے۔

ان کا بیان ہے کہ ادھر میں نے ابوجہل کو مارا اور ادھر اس کے بیٹے عکرمہ نے میرے کندھے پر تلوار چلائی، جس سے میرا ہاتھ کٹ کر میرے بازو کے چمڑے سے لٹک گیا اور لڑائی میں مخل ہونے لگا، میں اسے اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے سارا دن لڑا، لیکن جب وہ مجھے اذیت پہنچانے لگا تو میں نے اس پر اپنا پاؤں رکھا اور اسے زور سے کھینچ کر الگ کردیا، اس کے بعد ابوجہل کے پاس معوذ بن عفراء (رضی اللہ عنہ) پہنچے، وہ زخمی تھا، انہوں نے اسے ایسی ضرب لگائی کہ وہ وہیں ڈھیر ہوگیا، صرف سانس آتی جاتی رہی، اس کے بعد معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہ بھی لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔

جب معرکہ ختم ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''کون ہے جو دیکھے کہ ابو جہل کا انجام کیا ہوا؟'' اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کی تلاش میں بکھر گئے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اسے اس حالت میں پایا کہ ابھی سانس آ جا رہی تھی، انہوں نے اس کی گردن پر پاؤں رکھا اور سر کاٹنے کے لیے ڈاڑھی پکڑی اور فرمایا: "او اللہ کے دشمن! آخر اللہ نے تجھے رسوا کیا نا؟"

اس نے (تکبر سے) کہا: ''مجھے کاہے کو رسوا کیا؟ کیا جس شخص کو تم لوگوں نے قتل کیا ہے، اس سے بھی بلند پایہ کوئی آدمی ہے، یا جس کو تم لوگوں نے قتل کیا ہے، اس سے بھی اوپر کوئی آدمی ہے؟'' پھر بولا: ''کاش! مجھے کسانوں کے بجائے کسی اور نے قتل کیا ہوتا۔''

اس کے بعد کہنے لگا: ''مجھے بتاو!ٔ آج فتح کس کی ہوئی؟'' حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی۔" اس کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود سے جو اس کی گردن پر پاؤں رکھ چکے تھے، کہنے لگا: "او بکری کے چرواہے! تو بڑی اونچی اور مشکل جگہ پر چڑھ گیا۔" واضح رہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مکے میں بکریاں چرایا کرتے تھے۔

اس گفتگو کے بعد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کا سر کاٹ لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لاکر حاضر کر تے ہوئے عرض کیا: ''یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! یہ رہا اللہ کے دشمن ابوجہل کا سر۔''

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار فرمایا: ''واقعی اس اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔'' اس کے بعد فرمایا: "اللہ اکبر! تمام حمد اللہ کے لیے ہے، جس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد فرمائی اور تنہا سارے گروہوں کو شکست دی۔'' پھر فرمایا: "چلو! مجھے اس کی لاش دکھاؤ۔"

ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے جا کر لاش دکھائی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "یہ اس امت کا فرعون ہے۔"

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بدترین دشمن امیہ بن خلف بھی اس جنگ میں مارا گیا۔ بہرحال! تائید الٰہی کی بدولت تین سو تیرہ مسلمانوں کو ایک ہزار کفار قریش کا مقابلہ میں کامیابی ہوئی۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں