سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 142


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 142

 غزوہ ٔسویق اور غزوہ ٔ ذی امر:

 غزوہ ٔسویق:

ایک طرف صفوان بن امیہ ، یہود اورمنافقین اپنی اپنی سازشوں میں مصروف تھے تو دوسری طرف ابوسفیان بھی کوئی ایسی کاروائی انجام دینے کی ادھیڑ بن میں تھے جس میں بار کم سے کم پڑے لیکن اثر نمایاں ہو.. وہ ایسی کاروائی جلد از جلد انجام دے کر اپنی قوم کی آبرو کی حفاظت اور ان کی قوت کا اظہار کرنا چاہتے تھے.. انہوں نے نذر مان رکھی تھی کہ جنابت کے سبب ان کے سر کو پانی نہ چھو سکے گا , یہاں تک کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لڑائی کرلے.. چنانچہ وہ اپنی قسم پوری کرنے کے لیے دو سو سواروں کو لے کر روانہ ہوئے اور وادیٔ قناۃ کے سرے پر واقع نیب نامی ایک پہاڑی کے دامن میں خیمہ زن ہوئے.. مدینے سے اس کا فاصلہ کوئی بارہ میل ہے لیکن چونکہ ابوسفیان کو مدینے پر کھلم کھلا حملے کی ہمت نہ ہوئی , اس لیے انہوں نے ایک ایسی کارروائی انجام دی جسے ڈاکہ زنی سے ملتی جلتی کارروائی کہا جاسکتا ہے..

اس کی تفصیل یہ ہے کہ وہ رات کی تاریکی میں اطرافِ مدینہ کے اندر داخل ہوئے اور حیی بن اخطب کے پاس جا کر اس کا دروازہ کھلوایا.. حیی نے انجام کے خوف سے انکار کردیا.. ابوسفیان پلٹ کر بنونضیر کے ایک دوسرے سردار سلام مشکم کے پاس پہنچے جو بنو نضیر کا خزانچی بھی تھا.. ابو سفیان نے اندر آنے کی اجازت چاہی.. اس نے اجازت بھی دی اور مہمان نوازی بھی کی.. خوراک کے علاوہ شراب بھی پلائی اور لوگوں کے پس پردہ حالات سے آگاہ بھی کیا.. رات کے پچھلے پہر ابوسفیان وہاں سے نکل کر اپنے ساتھیوں میں پہنچے اور ان کا ایک دستہ بھیج کر مدینے کے اطراف میں عریض نامی ایک مقام پر حملہ کردیا.. اس دستے نے وہاں کھجور کے کچھ درخت کاٹے اور جلائے اور ایک انصاری اور اس کے حلیف کو ان کے کھیت میں پاکر قتل کردیا اور تیزی سے مکہ واپس بھاگ نکلے..

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واردات کی خبر ملتے ہی تیز رفتاری سے ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کا تعاقب کیا لیکن وہ اس سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے بھاگے.. چنانچہ وہ لوگ تو دستیاب نہ ہوئے لیکن انہوں نے بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ستو ، توشے اور سازوسامان پھینک دیا تھا جو مسلمانوں کے ہاتھ لگا.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کرکرۃ الکدر تک تعاقب کرکے واپسی کی راہ لی.. مسلمان ستو وغیرہ لاد پھاند کر واپس ہوئے اور اس مہم کا نام غزوہ ٔسویق رکھ دیا.. (سویق عربی زبان میں ستو کو کہتے ہیں) یہ غزوہ جنگ بدر کے صرف دو ماہ بعد ذی الحجہ 2ھ میں پیش آیا.. اس غزوے کے دوران مدینے کا انتظام ابو لبابہ بن عبدالمنذر رضی اللہ عنہ کو سونپا گیا تھا..

(زاد المعاد ۲/ ۹۰ ، ۹۱ ، ابن ہشام ۲/ ۴۴ ، ۴۵)

غزوہ ٔ ذی امر:

معرکہ ٔ بدر واحد کے درمیانی عرصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیرقیادت یہ سب سے بڑی فوجی مہم تھی جو محرم 3 ھ میں پیش آئی.. اس کا سبب یہ تھا کہ مدینے کے ذرائع اطلاعات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ اطلاع فراہم کی کہ بنو ثعلبہ اور محارب کی بہت بڑی جمعیت مدینے پر چھاپہ مارنے کے لیے اکٹھی ہورہی ہے.. یہ اطلاع ملتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو تیاری کا حکم دیا اور سوار وپیادہ پر مشتمل ساڑھے چار سو کی نفری لے کر روانہ ہوئے اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو مدینے میں اپنا جانشین مقرر فرمایا..

راستے میں صحابہ نے بنو ثعلبہ کے جبار نامی ایک شخص کو گرفتار کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی تو اس نے اسلام قبول کرلیا.. اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی رفاقت میں دے دیا اور اس نے راہ شناس کی حیثیت سے مسلمانوں کو دشمن کی سرزمین تک راستہ بتایا..

ادھر دشمن کو جیش مدینہ کی آمد کی خبر ہوئی تو وہ گردوپیش کی پہاڑیوں میں بکھر گئے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیش قدمی جاری رکھی اور لشکر کے ہمراہ اس مقام تک تشریف لے گئے جسے دشمن نے اپنی جمعیت کی فراہمی کے لیے منتخب کیا تھا.. یہ درحقیقت ایک چشمہ تھا جو ''ذی امر '' کے نام سے معروف تھا..

( ابن ہشام ۲/۴۶)

===========>> جاری ھے..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں