سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 135


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 135

مدینے میں فتح کی خوشخبری:

مسلمانوں کی فتح ہوچکی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل مدینہ کو جلد از جلد خوشخبری دینے کے لیے دو قاصد روانہ فرمائے، ایک حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ، جنہیں عوالی (بالائی مدینہ) کے باشندوں کے پاس بھیجا گیا تھا اور دوسرے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ، جنہیں زیرین مدینہ کے باشندوں کے پاس بھیجا گیا تھا-

اس دوران یہود اور منافقین نے جھوٹے پر وپیگنڈے کر کر کے مدینے میں ہل چل بپا کر رکھی تھی، یہاں تک کہ یہ خبر بھی اڑا رکھی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قتل کر دیئے گئے ہیں،
چنانچہ جب ایک منافق نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی قَصْوَاء پر سوار آتے دیکھا تو بول پڑا: "واقعی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتل کردیئے گئے ہیں، دیکھو! یہ تو انہی کی اونٹنی ہے، ہم اسے پہچانتے ہیں اور یہ زید بن حارثہ ہے، شکست کھا کر بھاگا ہے اور اس قدر مرعوب ہے کہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہے۔"

بہرحال! جب دونوں قاصد پہنچے تو مسلمانوں نے انہیں گھیر لیا اور ان سے تفصیلات سننے لگے، حتیٰ کہ انہیں یقین آگیا کہ مسلمان فتح یاب ہوئے ہیں، اس کے بعد ہر طرف مسرت وشادمانی کی لہر دوڑ گئی اور مدینے کے دَرو بام تہلیل وتکبیر کے نعروں سے گونج اُٹھے اور جو سربر آوردہ مسلمان مدینے میں رہ گئے تھے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس فتح مبین کی مبارک باد دینے کے لیے بدر کے راستے پر نکل پڑے۔

فتح بدر کے روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیّہ رضی اللہ عنہا نے وفات پائی، حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہمارے پاس اس وقت خبر پہنچی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کو جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عقد میں تھیں، دفن کرکے قبر پر مٹی برابر کر چکے تھے، ان کی تیمار داری کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ مجھے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینے ہی میں چھوڑ دیا تھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معرکہ ختم ہونے کے بعد تین دن بدر میں قیام فرمایا اور ابھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میدانِ جنگ سے کوچ نہیں فرمایا تھا کہ مالِ غنیمت کے بارے میں لشکر کے اندر اختلاف پڑگیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ جس کے پاس جو کچھ ہے وہ آپ کے حوالے کردے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس حکم کی تعمیل کی اور اس کے بعد اللہ نے وحی کے ذریعہ اس مسئلے کا حل نازل فرمایا اور یہ آیت نازل فرمائی :

''لوگ آپ سے مال غنیمت کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دو! غنیمت اللہ اور رسول کے لیے ہے، پس اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی تعلقات کی اصلاح کرلو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اگر واقعی تم لوگ مومن ہو۔'' ﴿١﴾ (۸: ۱)

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مالِ غنیمت کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ ( مسند احمد ۵ / ۳۲۳ ، ۳۲۴ حاکم ۲/۳۲۶ )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تین روز بدر میں قیام فرماکر مدینے کے لیے چل پڑے، آپ کے ہمراہ مشرک قیدی بھی تھے اور مشرکین سے حاصل کیا ہوا مال غنیمت بھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن کعب رضی اللہ عنہ کو اس کی نگرانی سونپی تھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وادیٔ صفراء کے درّے سے باہر نکلے تو درّے اور نازیہ کے درمیان ایک ٹیلے پر پڑاؤ ڈالا اور وہیں خمس (پانچواں حصہ) علیحدہ کر کے باقی مال غنیمت مسلمانوں پر برابر تقسیم کردیا۔

وادیٔ صفراء ہی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم صادر فرمایا کہ نضر بن حارث کو قتل کردیا جائے، اس شخص نے جنگِ بدر میں مشرکین کا پرچم اُٹھارکھا تھا اور یہ قریش کے اکابر مجرمین میں سے تھا، اسلام دشمنی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایذاء رسانی میں حد درجہ بڑھا ہوا تھا، آپ کے حکم پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کی گردن مار دی۔

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرق الظبیہ پہنچے تو عقبہ بن ابی معیط کے قتل کا حکم صادر فرمایا، یہ شخص جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذاء پہنچایا کرتا تھا، اس کا کچھ ذکر پیچھے گزر چکا ہے، یہی شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیٹھ پر نماز کی حالت میں اونٹ کی اوجھ ڈالی تھی اور اسی شخص نے آپ کی گردن پہ چادر لپیٹ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنا چاہا تھا اور اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بروقت نہ گئے ہوتے تو اس نے (اپنی دانست میں تو) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گلا گھونٹ کر مار ہی ڈالا تھا، حضرت عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ نے یا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کی گردن ماردی۔ (سنن ابی داؤد مع شرح عون المعبود ۳/۱۲)

جنگی نقطۂ نظر سے ان دونوں طاغوتوں کا قتل کیا جانا ضروری تھا، کیونکہ یہ صرف جنگی قیدی نہ تھے بلکہ جدید اصطلاح کی روسے جنگی مجرم بھی تھے۔

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقامِ رَوحاء پہنچے تو ان مسلمان سربراہوں سے ملاقات ہوئی جو دونوں قاصدوں سے فتح کی بشارت سن کر آپ کا استقبال کرنے اور آپ کو فتح کی مبارک باد پیش کرنے کے لیے مدینے سے نکل پڑے تھے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں اس طرح مظفر ومنصور داخل ہوئے کہ شہر اور گرد وپیش کے سارے دشمنوں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دھاک بیٹھ چکی تھی۔

اس فتح کے اثر سے مدینے کے بہت سے لوگ حلقۂ بگوش اسلام ہوئے اور اسی موقع پر عبداللہ بن اُبی اور اس کے ساتھیوں نے بھی دکھاوے کے لیے اسلام قبول کیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری کے ایک دن بعد قیدیوں کی آمد آمد ہوئی، آپ نے انہیں صحابہ کرام پر تقسیم فرما دیا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت فرمائی، اس وصیت کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خود کھجور کھاتے تھے، لیکن قیدیوں کو روٹی پیش کرتے تھے، واضح رہے کہ مدینے میں کھجور بے حیثیت چیز تھی اور روٹی خاصی گراں قیمت۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں