سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 139


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 139

نبی ﷺ کے قتل کی سازش:

جنگ بدر میں شکست کھا کر مشرکین غصے سے بے قابو تھے اور پورا مکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ہانڈی کی طرح کھول رہا تھا، بالآخر مکے کے دو بہادر نوجوان نے طے کیا کہ وہ اپنی دانست میں اس اختلاف وشقاق کی بنیاد اور اس ذلت ورسوائی کی جڑ (نعوذ باللہ ) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاتمہ کردیں گے۔

چنانچہ جنگ بدر کے کچھ ہی دنوں بعد کا واقعہ ہے کہ عُمیر بن وہب جمحی جو قریش کے شیطانوں میں سے تھا اور مکے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اذیتیں پہنچا یا کرتا تھا اور اب اس کا بیٹا وہب بن عُمیر جنگ بدر میں گرفتار ہوکر مسلمانوں کی قید میں تھا، اس لیے عمیر نے ایک دن صفوان بن امیہ کے ساتھ حطیم میں بیٹھ کر گفتگو کرتے ہوئے بدر کے کنویں میں پھینکے جانے والے مقتولوں کا ذکر کیا۔

اس پر صفوان نے کہا: ''اللہ کی قسم! ان کے بعد جینے میں کوئی لطف نہیں۔'' جواب میں عمیر نے کہا: ''اللہ کی قسم! تم سچ کہتے ہو، دیکھو! اگر میرے اوپر قرض نہ ہوتا جس کی ادائیگی کے لیے میرے پاس کچھ نہیں اور اہل وعیال نہ ہوتے جن کے بارے میں اندیشہ ہے کہ میرے بعد ضائع ہوجائیں گے تو میں سوار ہو کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاتا اور اسے قتل کر ڈالتا، کیونکہ میرے لیے وہاں جانے کی ایک وجہ موجود ہے، میرا بیٹا ان کے ہاں قید ہے۔''

صفوان نے اس صورت حال کو غنیمت سمجھتے ہوئے کہا: ''اچھا چلو! تمہارا قرض میرے ذِمے ہے، میں اسے تمہاری جانب سے ادا کر دوں گا اور تمہارے اہل وعیال میرے اہل وعیال ہیں، جب تک وہ موجود رہیں گے میں ان کی دیکھ بھال کرتا رہوں گا، ایسا نہیں ہو سکتا کہ میرے پاس کوئی چیز موجود ہو اور ان کو نہ ملے۔"

عمیر نے کہا: "اچھا تو اب میرے اور اپنے معاملے کو صیغۂ راز میں رکھنا۔"
صفوان نے کہا: "ٹھیک ہے، میں ایسا ہی کروں گا۔"

اس کے بعد عمیر نے اپنی تلوار پر سان رکھائی اور زہر آلود کرائی، پھر روانہ ہوا اور مدینہ پہنچا، لیکن ابھی وہ مسجد کے دروازے پر اپنی اونٹنی بٹھا ہی رہا تھا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی نگاہ اس پر پڑ گئی، وہ مسلمانوں کی ایک جماعت کے درمیان جنگ بدر میں اللہ کے عطا کردہ اعزاز واکرام کے متعلق باتیں کررہے تھے، انہوں نے دیکھتے ہی کہا: ''یہ اللہ کا دشمن عمیر، کسی بُرے ہی ارادے سے آیا ہے۔"

پھر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: "اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! یہ اللہ کا دشمن عمیر اپنی تلوار حمائل کیے آیا ہے۔" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اسے میرے پاس لے آؤ۔"

عمیر آیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی تلوار کے پرتلے کو اس کے گلے کے پاس سے پکڑ لیا اور انصار کے چند افراد سے کہا کہ تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤ اور وہیں بیٹھ جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف اس کے خطرے سے چوکنا رہو! کیونکہ یہ قابل اطمینان نہیں ہے، اس کے بعد وہ عمیر کو اندر لے گئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب یہ کیفیت دیکھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کی گردن میں اس کی تلوار کا پرتلا لپیٹ کر پکڑے ہوئے ہیں تو فرمایا: ''عمر! اسے چھوڑ دو اور عمیر! تم قریب آجاؤ۔''

اس نے قریب آکر کہا: "آپ لوگوں کی صبح بخیر ہو۔" نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ایسے تحیہ سے مشرف کیا ہے جو تمہارے اس تحیہ سے بہتر ہے، یعنی سلام سے، جو اہل ِ جنت کا تحیہ ہے۔" اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اے عمیر! تم کیوں آئے ہو؟"

اس نے کہا: "یہ قیدی جو آپ لوگوں کے قبضے میں ہے، اسی کے لیے آیا ہوں، آپ لوگ اس کے بارے میں احسان فرما دیجیے۔" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "پھر یہ تمہاری گردن میں تلوار کیوں ہے؟" اس نے کہا: "اللہ ان تلواروں کا بُرا کرے کہ یہ ہمارے کچھ کام نہ آسکیں۔"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "سچ سچ بتاؤ کیوں آئے ہو؟" اس نے کہا: "بس صرف اسی قیدی کے لیے آیا ہوں۔" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''نہیں بلکہ تم اور صفوان بن امیہ حطیم میں بیٹھے اور قریش کے جو مقتولین کنویں میں پھینکے گئے ہیں، ان کا تذکرہ کیا، پھر تم نے کہا: "اگر مجھ پر قرض نہ ہوتا اور میرے اہل وعیال نہ ہوتے تو میں یہاں سے جاتا اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کردیتا" اس پر صفوان نے تمہارے قرض اور اہل وعیال کی ذمے داری لی، بشرطیکہ تم مجھے قتل کردو، لیکن یاد رکھو کہ اللہ میرے اور تمہارے درمیان حائل ہے۔"

عمیر نے کہا: "میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ ہمارے پاس آسمان کی جو خبریں لاتے تھے اور آپ پر جو وحی نازل ہوتی تھی، اسے ہم جھٹلا دیا کرتے تھے، لیکن یہ تو ایسا معاملہ ہے جس میں میرے اور صفوان کے سوا کوئی موجود ہی نہ تھا، اس لیے واللہ! مجھے یقین ہے کہ یہ بات اللہ کے سوا اور کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک نہیں پہنچائی، پس اللہ کی حمد ہے جس نے مجھے اسلام کی ہدایت دی اور اس مقام تک ہانک کر پہنچایا۔"

پھر عمیر نے کلمۂ حق کی شہادت دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مخاطب کرکے فرمایا: ''اپنے بھائی کو دین سمجھاؤ، قرآن پڑھاؤ اور اس کے قیدی کو آزاد کردو۔''

ادھر صفوان لوگوں سے کہتا پھر رہا تھا کہ یہ خوشخبری سن لو کہ چند ہی دنوں میں ایک ایسا واقعہ پیش آئے گا جو بدر کے مصائب بھلوادے گا، ساتھ ہی وہ آنے جانے والوں سے عمیر رضی اللہ عنہ کی بابت پوچھتا بھی رہتا تھا، بالآخر اسے ایک سوار نے بتایا کہ عمیر (رضی اللہ عنہ) مسلمان ہوچکا ہے، یہ سن کر صفوان نے قسم کھائی کہ اس سے کبھی بات نہ کرے گا اور نہ کبھی اسے نفع پہنچائے گا۔
(ابن ہشام ۱/۶۶۱، ۶۶۲ ، ۶۶۳)

---------->> جاری ھے ۔۔۔

الرحیق المختوم مولانا صفی الرحمن مبارکپوری
سیرت المصطفی مولانا ادریس کاندھلوی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں