سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 126


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 126

اہم فوجی مراکز کی طرف اسلامی لشکر کی سبقت:

قریش مکہ بڑے سرو سامان سے نکلے تھے، ایک ہزار کی فوج تھی، ایک سو سواروں کا رسالہ تھا، سب روسائے قریش شریک تھے، ابو لہب مجبوری سے نہ آسکا تھا، اس لئے اپنی طرف سے قائم مقام بھیج دیا تھا، رسد کا یہ انتظام تھا کہ امرائے قریش باری باری ہر روز دس اونٹ ذبح کرتے اور لوگوں کو کھلاتے تھے۔

قریش کو بدر کے قریب پہنچ کر جب معلوم ہوا کہ ابو سفیان کا قافلہ خطرہ کی زد سے نکل گیا ہے تو قبیلہ زہرہ اور عدی کے لوگ واپس چلے گئے، باقی فوج آگے بڑھی اور مناسب موقعوں پر قبضہ کرلیا، برخلاف اس کے مسلمانوں کی طرف چشمہ یا کنواں تک نہ تھا، تائید ایزدی سے اسی رات بارش ہوئی، جو مشرکین پر موسلا دھار برسی اور ان کی پیش قدمی میں رکاوٹ بن گئی، لیکن مسلمانوں پر پھوار بن کر برسی اور زمین کو ہموار کر دیا، اس کی وجہ سے ریت میں سختی آگئی اور قدم ٹکنے کے لائق ہوگئے، قیام خوشگوار ہو گیا اور دل مضبوط ہوگئے، جا بجا پانی کو روک کر چھوٹے چھوٹے حوض بنائے گئے کہ غسل اور وضو کے کام آئیں۔

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے لشکر کو حرکت دی، تاکہ مشرکین سے پہلے بدر کے چشمے پر پہنچ جائیں اور اس پر مشرکین کو مُسلط نہ ہونے دیں، چنانچہ عشاء کے وقت آپ نے بدر کے قریب ترین چشمے پر نزول فرمایا، اس موقعے پر حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے ایک ماہر فوجی کی حیثیت سے دریافت کیا: "یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا اس مقام پر آپ اللہ کے حکم سے نازل ہوئے ہیں کہ ہمارے لیے اس سے آگے پیچھے ہٹنے کی گنجائش نہیں، یا آپ نے اسے محض ایک جنگی حکمتِ عملی کے طور پر اختیار فرمایا ہے؟"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "یہ محض جنگی حکمتِ عملی کے طور پر ہے۔" انہوں نے کہا: "یہ مناسب جگہ نہیں ہے، آپ آگے تشریف لے چلیں اور قریش کے سب سے قریب جو چشمہ ہو، اس پر پڑاؤ ڈالیں، پھر ہم بقیہ چشمے پاٹ دیں گے اور اپنے چشمے پر حوض بنا کر پانی بھر لیں گے، اس کے بعد ہم قریش سے جنگ کریں گے تو ہم پانی پیتے رہیں گے اور انہیں پانی نہ ملے گا۔"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''تم نے بہت ٹھیک مشورہ دیا۔'' اس کے بعد آپ لشکر سمیت اُٹھے اور کوئی آدھی رات گئے دشمن کے سب سے قریب ترین چشمے پر پہنچ کر پڑاؤ ڈال دیا، پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حوض بنایا اور باقی تمام چشموں کو بند کردیا۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم چشمے پر پڑاؤ ڈال چکے تو حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ تجویز پیش کی کہ کیوں نہ مسلمان آپ کے لیے ایک مرکزِ قیادت تعمیر کردیں تاکہ خدانخواستہ فتح کے بجائے شکست سے دوچار ہونا پڑ جائے یا کسی اور ہنگامی حالت سے سابقہ پیش آجائے تو اس کے لیے آپ پہلے ہی سے مستعد رہیں، چنانچہ انہوں نے عرض کیا:

"اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیوں نہ ہم آپ کے لیے ایک چھپر تعمیر کردیں، جس میں آپ تشریف رکھیں گے اور ہم آپ کے پاس آپ کی سواریاں بھی مہیا رکھیں گے، اس کے بعد دشمن سے ٹکر لیں گے، اگر اللہ نے ہمیں عزت بخشی اور دشمن پر غلبہ فرمایا تو یہ وہ چیز ہوگی جو ہمیں پسند ہے اور اگر دوسری صورت پیش آگئی تو آپ سوار ہوکر ہماری قوم کے ان لوگوں کے پاس جا رہیں گے جو پیچھے رہ گئے ہیں، درحقیقت آپ کے پیچھے اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ایسے لوگ رہ گئے ہیں کہ ہم آپ کی محبت میں ان سے بڑھ کر نہیں، اگر انہیں یہ اندازہ ہوتا کہ آپ جنگ سے دوچار ہوں گے تو وہ ہرگز پیچھے نہ رہتے، اللہ ان کے ذریعے آپ کی حفاظت فرمائے گا، وہ آپ کے خیر خواہ ہوں گے اور آپ کے ہمراہ جہاد کریں گے۔"

اس پر رسول اللہ نے ان کی تعریف فرمائی اور ان کے لیے دعائے خیر کی اور مسلمانوں نے میدان جنگ کے شمال مشرق میں ایک اونچے ٹیلے پر چھپر بنایا، جہاں سے پورا میدانِ جنگ دکھائی پڑتا تھا، آپ کے اس مرکزِ قیادت کی نگرانی کے لیے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی کمان میں انصار نوجوانوں کا ایک دستہ منتخب کردیا گیا۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں