سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 134


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 134

مکے میں شکست کی خبر:

مشرکین نے میدانِ بدر سے غیر منظم شکل میں بھاگتے ہوئے تتر بتر ہو کر گھبراہٹ کے عالم میں مکے کا رخ کیا، شرم وندامت کے سبب ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس طرح مکے میں داخل ہوں۔

ابن اسحاق کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جو شخص قریش کی شکست کی خبر لے کر مکے وارد ہوا، وہ حَیْسمان بن عبداللہ خزاعی تھا، لوگوں نے اس سے دریافت کیا کہ پیچھے کی کیا خبر ہے؟ اس نے کہا: "عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابو الحکم بن ہشام (ابوجہل)، اُمیہ بن خلف (اور مزید کچھ سرداروں کا نام لیتے ہوئے) یہ سب قتل کردیئے گئے۔"

ابورافع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں ان دنوں حضرت عباس (رضی اللہ عنہ) کا غلام تھا، ہمارے گھر میں اسلام داخل ہوچکا تھا، حضرت عباس مسلمان ہوچکے تھے، امّ الفضل رضی اللہ عنہا مسلمان ہو چکی تھیں، میں بھی مسلمان ہو چکا تھا، البتہ حضرت عباس نے اپنا اسلام چھپا رکھا تھا، ادھر ابولہب جنگ بدر میں حاضر نہ ہوا تھا، جب اسے خبر ملی تو اللہ نے اس پر ذلت و روسیاہی طاری کردی اور ہمیں اپنے اندر قوت وعزت محسوس ہوئی، میں کمزور آدمی تھا، تیر بنایا کرتا تھا اور زمزم کے حجرے میں بیٹھا تیر کے دستے چھیلتا رہتا تھا، واللہ! اس وقت میں حجرے میں بیٹھا اپنے تیر چھیل رہا تھا، میرے پاس اُم الفضل بیٹھی ہوئی تھیں اور جو خبر آئی تھی اس سے ہم شاداں و فرحاں تھے کہ اتنے میں ابولہب اپنے دونوں پاؤں بری طرح گھسیٹتا ہوا آ پہنچا اور حجرے کے کنارے پر بیٹھ گیا، اس کی پیٹھ میری پیٹھ کی طرف تھی، ابھی وہ بیٹھا ہی ہوا تھا کہ اچانک شور ہوا: "یہ ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب آگیا۔" ابو لہب نے اس سے کہا: "میرے پاس آؤ! میری عمر کی قسم! تمہارے پاس خبر ہے۔" وہ ابولہب کے پاس بیٹھ گیا، لوگ کھڑے تھے، ابولہب نے کہا: "بھتیجے بتاؤ! لوگوں کا کیا حال رہا؟"

ابوسفیان نے کہا: "کچھ نہیں! بس لوگوں سے ہماری مڈبھیڑ ہوئی اور ہم نے اپنے کندھے ان کے حوالے کردیئے، وہ ہمیں جیسے چاہتے تھے قتل کرتے تھے اور جیسے چاہتے تھے قید کرتے تھے اور اللہ کی قسم! میں اس کے باوجود لوگوں کو ملامت نہیں کر سکتا، درحقیقت ہماری مڈبھیڑ کچھ ایسے گورے چٹے لوگوں سے ہوئی تھی جو آسمان وزمین کے درمیان چتکبرے گھوڑوں پر سوار تھے، اللہ کی قسم! نہ وہ کسی چیز کو چھوڑتے تھے اور نہ کوئی چیز ان کے مقابل ٹک پاتی تھی۔"

ابو رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ہاتھ سے خیمے کا کنارہ اٹھایا، پھر کہا: "وہ اللہ کی قسم! فرشتے تھے۔"

یہ سن کر ابولہب نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور میرے چہرے پر زور دار تھپڑ رسید کیا، میں اس سے لڑ پڑا، لیکن اس نے مجھے اٹھا کر زمین پر پٹک دیا، پھر میرے اوپر گھٹنے کے بل بیٹھ کر مجھے مارنے لگا، میں کمزور جو ٹھہرا، لیکن اُم الفضل رضی اللہ عنہا نے اٹھ کر خیمے کا ایک کھمبا لیا اور اسے ایسی ضرب ماری کہ سر میں بُری چوٹ آگئی اور ساتھ ہی بولیں: "اس کا مالک نہیں ہے، اس لیے اسے کمزور سمجھ رکھا ہے؟"

ابولہب رسوا ہو کر اٹھا اور چلا گیا، اس کے بعد اللہ کی قسم! صرف سات راتیں گزری تھیں کہ اللہ نے اسے عدسہ (ایک قسم کے طاعون) میں مبتلا کردیا اور اس کا خاتمہ کردیا، عدسہ کی گلٹی کو عرب بہت منحوس سمجھتے تھے، چنانچہ (مرنے کے بعد) اس کے بیٹوں نے بھی اسے یوں ہی چھوڑ دیا اور وہ تین روز تک بے گور وکفن پڑا رہا، کوئی اس کے قریب نہ جاتا تھا اور نہ اس کی تدفین کی کوشش کرتا تھا، جب اس کے بیٹوں کو خطرہ محسوس ہوا کہ اس طرح چھوڑنے پر لوگ انہیں ملامت کریں گے تو ایک گڑھا کھود کر اسی میں لکڑی سے اس کی لاش دھکیل دی اور دور ہی سے پتھر پھینک پھینک کر چھپا دی۔"

اس طرح اہل مکہ کو میدان بدر کی شکست فاش کی خبر ملی اور ان کی طبیعت پر اس کا نہایت برا اثر پڑا، حتیٰ کہ انہوں نے مقتولین پر نوحہ کرنے کی ممانعت کردی، تاکہ مسلمانوں کو اس کے غم پر خوش ہونے کا موقع نہ ملے۔

اس سلسلے کاا یک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ جنگ بدر میں اسود بن عبدالمطلب کے تین بیٹے مارے گئے، اس لیے وہ ان پر رونا چاہتا تھا، وہ اندھا آدمی تھا، ایک رات اس نے نوحہ کرنے والی عورت کی آواز سنی، جھٹ اپنے غلام کو بھیجا اور کہا: ''ذرا دیکھو! کیا نوحہ کرنے کی اجازت مل گئی ہے؟ کیا قریش اپنے مقتولین پر رو رہے ہیں، تاکہ میں بھی اپنے بیٹے ابو حکیمہ پر روؤں کیونکہ میرا سینہ جل رہا ہے۔''

غلام نے واپس آکر بتایا کہ یہ عورت تو اپنے گم شدہ اُونٹ پر رو رہی ہے۔" اسود یہ سن کر اپنے آپ پر قابو نہ پا سکا اور بے اختیار کہہ پڑا :

''کیا وہ اس بات پر روتی ہے کہ اس کا اونٹ غائب ہوگیا اور اس پر بے خوابی نے اس کی نیند حرام کر رکھی ہے؟ تُو اونٹ پر نہ رو، بلکہ بدر پر رو! جہاں قسمتیں پھوٹ گئیں، ہاں ہاں! بدر پر رو، جہاں بنی ہصیص، بنی مخزوم اور ابوالولید کے قبیلے کے سربر آوردہ افراد ہیں، اگر رونا ہی ہے تو عقیل پر رو اور حارث پر رو جو شیروں کا شیر تھا، تو ان لوگوں پر رو اور سب کا نام نہ لے اور ابوحکیمہ کا تو کوئی ہمسر ہی نہ تھا، دیکھو! ان کے بعد ایسے ایسے لوگ سردار ہوگئے کہ اگر بدر کا دن نہ ہوتا تو وہ سردار نہ ہوسکتے تھے۔''

==================>> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں