سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 131


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 131

مسلمانوں کا جوابی حملہ:

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جوابی حملے کا حکم اور جنگ کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:

''شدوا'' چڑھ دوڑو! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے! ان سے جو آدمی بھی ڈٹ کر، ثواب سمجھ کر، آگے بڑھ کر اور پیچھے نہ ہٹ کر لڑے گا اور مارا جائے گا، اللہ اسے ضرور جنت میں داخل کرے گا۔''

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قتال پر ابھارتے ہوئے یہ بھی فرمایا:

"اس جنت کی طرف اٹھو! جس کی پہنائیاں آسمانوں اور زمین کے برابر ہیں۔"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ بات سن کر عمیر بن حمام رضی اللہ عنہ جو اپنے توشہ دان سے کھجوریں نکال کر کھا رہے تھے، بولے:

"اگر میں اتنی دیر تک زندہ رہا کہ اپنی کھجوریں کھا لوں تو یہ تو لمبی زندگی ہوجائے گی۔" چنانچہ ان کے پاس جو کھجوریں تھیں، انہیں پھینک دیا، پھر مشرکین سے لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔
(مسلم ۲/۱۳۹ مشکوٰۃ ۲/۳۳۱)

جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جوابی حملے کا حکم صادر فرمایا، دشمن کے حملوں کی تیزی جا چکی تھی اور ان کا جوش و خروش سرد پڑ رہا تھا، اس لیے یہ باحکمت منصوبہ مسلمانوں کی پوزیشن مضبوط کرنے میں بہت مؤثر ثابت ہوا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جب حملہ آور ہونے کا حکم ملا اور ابھی ان کا جوشِ جہاد شباب پر تھا تو انہوں نے نہایت سخت تند اور صفایا کن حملہ کیا، وہ صفوں کی صفیں درہم برہم کرتے اور گردنیں کاٹتے آگے بڑھے۔

ان کے جوش وخروش میں یہ دیکھ کر مزید تیزی آگئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہ نفس نفیس زرہ پہنے تیز تیز چلتے تشریف لا رہے ہیں اور پورے یقین وصراحت کے ساتھ فرمارہے ہیں کہ:

''عنقریب یہ جتھہ شکست کھا جائے گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گا۔''

اس لیے مسلمانوں نے نہایت پُر جوش و پرخروش لڑائی لڑی اور فرشتوں نے بھی ان کی مدد فرمائی۔
چنانچہ ابن سعد کی روایت میں حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس دن آدمی کا سر کٹ کر گرتا اور یہ پتہ نہ چلتا کہ اسے کس نے مارا اور آدمی کا ہاتھ کٹ کر گرتا اور یہ پتہ نہ چلتا کہ اسے کس نے کاٹا۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان ایک مشرک کا تعاقب کر رہا تھا کہ اچانک اس مشرک کے اوپر کوڑے مارنے کی آواز آئی اور ایک شہسوار کی آواز سنائی پڑی جو کہہ رہا تھا کہ حیزوم! آگے بڑھ! مسلمان نے مشرک کو اپنے آگے دیکھا کہ وہ چِت گرا، لپک کر دیکھا تو اس کی ناک پر چوٹ کا نشان تھا، چہرہ پھٹا ہوا تھا، جیسے کوڑے سے مارا گیا ہو اور یہ سب کا سب ہرا پڑ گیا تھا۔

اس انصاری مسلمان نے آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ ماجرا بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''تم سچ کہتے ہو، یہ تیسرے آسمان کی مدد تھی۔'' (مسلم ۲/۹۳ وغیرہ)

ابو داؤد مازنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک مشرک کو مارنے کے لیے دوڑ رہا تھا کہ اچانک اس کا سر میری تلوار پہنچنے سے پہلے ہی کٹ کر گر گیا، میں سمجھ گیا کہ اسے میرے بجائے کسی اور نے قتل کیا ہے۔

ایک انصاری حضرت عباس بن عبدالمطلب (رضی اللہ عنہ) کو قید کرکے لایا تو حضرت عباس (رضی اللہ عنہ) کہنے لگے: ''واللہ! مجھے اس نے قید نہیں کیا ہے، مجھے تو ایک بے بال کے سر والے آدمی نے قید کیا ہے جو نہایت خوبرو تھا اور چتکبرے گھوڑے پر سوار تھا، اب میں اسے لوگوں میں نہیں دیکھ رہا ہوں۔"

انصاری نے کہا: ''اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! انہیں میں نے قید کیا ہے۔'' آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "خاموش رہو! اللہ نے ایک بزرگ فرشتے سے تمہاری مدد فرمائی ہے۔"

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے روز مجھ سے اور ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے کہا:

"تم میں سے ایک کے ساتھ جبرئیل اور دوسرے کے ساتھ میکائیل ہیں اور اسرافیل بھی ایک عظیم فرشتہ ہیں جو جنگ میں آیا کرتے ہیں۔"

جیسا کہ پہلے ذکر آچکا کہ ابلیس لعین، سراقہ بن مالک بن جعشم مدلجی کی شکل میں آیا تھا اور مشرکین سے اب تک جدا نہیں ہوا تھا، لیکن جب اس نے مشرکین کے خلاف فرشتوں کی کارروائیاں دیکھیں تو اُلٹے پاؤں پلٹ کر بھاگنے لگا، مگر حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ نے اسے پکڑ لیا، وہ سمجھ رہا تھے کہ یہ واقعی سراقہ ہی ہے، لیکن ابلیس نے حارث کے سینے پر ایسا گھونسا مارا کہ وہ گرگئے اور ابلیس نکل بھاگا۔

مشرکین کہنے لگے: "سراقہ کہا ں جارہے ہو؟ کیا تم نے یہ نہیں کہا تھا کہ تم ہمارے مددگار ہو، ہم سے جدا نہ ہوگے؟"

اس نے کہا: "میں وہ چیز دیکھ رہا ہوں جسے تم نہیں دیکھتے، مجھے اللہ سے ڈر لگتا ہے اور اللہ بڑی سخت سزا والا ہے۔" اس کے بعد بھاگ کر سمندر کی طرف نکل بھاگا۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں