سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 128


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 128

دونوں لشکر آمنے سامنے:

صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھنے کے لئے آواز دی، بعد نماز جہاد پر وعظ فرمایا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صف آرائی شروع کی، دست مبارک میں ایک تیر تھا، اس کے اشارہ سے صفیں قائم کرتے تھے۔

صف کی درستگی کے دوران ایک عجیب واقعہ پیش آیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیر کے ذریعے صف سیدھی فرمارہے تھے کہ سواد بن غزیہ رضی اللہ عنہ کے پیٹ پر جو صف سے کچھ آگے نکلے ہوئے تھے، تیر کا دباؤ ڈالتے ہوئے فرمایا: "سواد! برابر ہوجاؤ۔"

سواد رضی اللہ عنہ نے کہا: "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ نے مجھے تکلیف پہنچا دی، بدلہ دیجیے!"

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنا پیٹ کھول دیا اور فرمایا: "بدلہ لے لو!"

سواد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چمٹ گئے اور آپ کے پیٹ کا بوسہ لینے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: "سواد! اس حرکت پر تمہیں کس بات نے آمادہ کیا؟"

انہوں نے کہا: "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! جو کچھ درپیش ہے آپ دیکھ ہی رہے ہیں، میں نے چاہا کہ ایسے موقعے پر آپ سے آخری معاملہ یہ ہو کہ میری جلد آپ کی جلد سے چھو جائے۔" اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے دعائے خیر فرمائی۔

اب دو صفیں آمنے سامنے مقابل تھیں، حق و باطل کفر واسلام

یہ عجیب منظر تھا، اتنی بڑی دنیا میں توحید کی قسمت صرف چند جانوں پر منحصر تھی، صحیحین میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سخت خضوع کی حالت طاری تھی، دونوں ہاتھ پھیلا کر فرماتے تھے: "خدایا! تونے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے، آج پورا کر۔" محویت اور بے خودی کے عالم میں چادر کندھے سے گر گر پڑتی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر تک نہ ہوتی تھی، کبھی سجدہ میں گرتے تھے اور فرماتے تھے: "خدایا! اگر یہ چند نفوس آج مٹ گئے تو پھر قیامت تک تیرا نام لیوا کوئی نہ ہوگا۔"

جب صفیں درست ہو چکیں تو آپ نے لشکر کو ہدایت فرمائی کہ جب تک اسے آپ کے آخری احکام موصول نہ ہوجائیں، جنگ شروع نہ کرے، اس کے بعد طریقۂ جنگ کے بارے میں ایک خصوصی رہنمائی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب مشرکین جھمگھٹ کرکے تمہارے قریب آجائیں تو ان پر تیر چلانا اور اپنے تیر بچانے کی کوشش کرنا، (یعنی پہلے ہی سے فضول تیراندازی کر کے تیروں کو ضائع نہ کرنا) اور جب تک وہ تم پر چھا نہ جائیں، تلوار نہ کھینچنا- (صحیح بخاری ۲/۵۶۸، سنن ابی داؤد: باب فی سل السیوف عند اللقاء ۲/۱۳)

اس کے بعد خاص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ چھپر کی طرف واپس چلے گئے اور حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اپنا نگراں دستہ لے کر چھپر کے دروازے پر تعینات ہوگئے۔

دوسری طرف مشرکین کی صورت حال یہ تھی کہ ابوجہل نے اللہ سے فیصلہ کی دعا کی، اس نے کہا: ''اے اللہ! ہم میں سے جو فریق قرابت کو زیادہ کاٹنے والا اور غلط حرکتیں زیادہ کرنے والا ہے، اسے تو آج توڑ دے، اے اللہ! ہم میں سے جو فریق تیرے نزدیک زیادہ محبوب اور زیادہ پسندیدہ ہے، آج اس کی مدد فرما۔'' بعد میں اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی :

''اگر تم فیصلہ چاہتے تو تمہارے پاس فیصلہ آگیا اور اگر تم باز آجاؤ تو یہی تمہارے لیے بہتر ہے، لیکن اگر تم (اپنی اس حرکت کی طرف ) پلٹو گے تو ہم بھی (تمہاری سزا کی طرف) پلٹیں گے اور تمہاری جماعت اگرچہ وہ زیادہ ہی کیوں نہ ہو، تمہارے کچھ کام نہ آسکے گی- (اور یاد رکھوکہ ) اللہ مومنین کے ساتھ ہے۔'' (۸: ۱۹ )

==================>> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں